قاری صاحب کا نام یوں کانوں میں پڑا کہ ہمارے حفظ کے استاذ اور ہماری نظر میں ایک دردمند، دوست، محسن ۔مفصل حال آئندہ کے لۓ اٹھا رکھتا ہوں جنکا تذکرہ مجھ پر تاحال قرض ہے خدا کرے نافع صورت میں اسے بھی رقم کر سکوں میرے استاذ تھے جنھوں نے قلم پکڑنا اور پڑھنا لکھنا سکھایا اور آج اسی کا صدقہ ہے (اگر پڑھ رہیں ہوں گے تو ہمیں یقین ہےضرور متبسم ہونگے اور دعائیں دیتے ہوں گے)۔
خیر تو قاری صاحب کا ذکر خیر اکثر ہمارے استاذ اپنی زبان خیر سے بڑی عقیدت و محبت سے کیا کرتے چونکہ ہمارے مولانا انہیں کے مدرسہ یعنی جامعیہ عربیہ ھتورا باندہ سے فارغ التحصیل ہیں اس لۓ موقع بموقع اس بزرگ و نیک ہستی کا نام کانوں پڑتا کئی واقعات انہیں کی زبانی سنے اور بقیہ کتابوں سے بہم پہنچے آج ارادہ ہے نیک بندے کا ذکر کروں۔
قاری صاحب کی ولادت انیس سو تئیس میں(1923) ہوئی تھی اور اٹھائس اگست انیس سو ترانوے (1993)میں آپ نے انتقال فرمایا۔ قاری صاحب کی تمام زندگی دوڑ دھوپ میں بیتی، مجاہدہ میں جیون بسر کیا۔ یوں تو ہر کوئی تکلیفیں اٹھاتا ہے زندگی کے آلام جھیلتا ہے لیکن جب تکلیفیں اور مشکلیں اللہ اور اسکے دین کے لۓ اٹھائی جاتی ہیں تو بڑی پر لطف ہوتی ہیں کوئی ہو جس کے لئے وہ دلمیں درد پالے ہوتا ہے اس کے لئے اس کو سہنے سننے لذت ہوتی ہے۔
طالب علمی کا زمانہ
آپ نے گاؤں کی مسجد میں کچھ پارے حفظ کئے، پڑھانے والے نے بس ساتھ آٹھ پارے ہی حفظ کر رکھے تھے اس لئے ان سے کہا کہ تم کسی اور سے حفظ مکمل کر لو ہم تمہیں اتنا ہی پڑھا سکتے تھے۔ آپ نے شہر کانپور کا ارادہ کیا والد کا سایہ اٹھ چکا تھا اماں سے جو ہو سکا اپنے لال کے لئے کیا کچھ روٹیاں اور بھنے چنے ساتھ کرکے دوسرے شہر بھیجا کہ بچہ پڑھ سکے۔ آپ کانپور چلے آۓ اور پڑھنے لگے کھانے کا انتظام کچھ نہ تھا جب تک اماں کی ساتھ کی ہوئی سوکھی روٹیاں چلیں کام چلتا رہا لیکن تابہ کے؟ بالآخر ایک دن سب ختم ہوا۔ بے گھر کے بچہ کو ایک وقت کی روٹی اس شرط پر ملی کہ سڑک سے بالٹی بالٹی بھر پانی زینوں چڑھا کر بالائی منزل تک پہنچاتا تب اجرت میں ایک وقت کی روٹی ملتی کبھی کبھی تو سیڑھیوں پہ تھک کے بیٹھ رہتے اور دیوار سے لگ کے چپکے چپکے رو لیا کرتے اور یہ واقعات قاری صاحب نے اخیر عمر تک چھپائے رکھے لیکن اٹھنے سے قبل درد چھلک گیا اور یہ بھی حال انھیں کی زبانی تھا کہ بازار سے بندھے اور گوبھی کے پتے لاتے اور دھوکر پیٹ بھرتے اللہ اللہ ! خدا درجات بلند کرے۔
مدرسہ کا قیام
آگے کی تعلیم مکمل کرکے کہیں تدریس میں منہمک تھے لیکن گاؤں میں ارتداد کی وبا پھیلی تھی دل میں چنگاری بھڑکی اللہ کا دین اور اسکا پیام ان لوگوں تک پہنچائیں اسی چنگاری نے موت تک بڑی بڑی خدمات لیں آپ سے، آپ گاؤں لوٹے اور تنِ تنہا اس کام میں لگے ارتداد کے شکار جو تھے انسے ملتے دین کی باتیں بتاتے مہینوں اس کام میں بتانے کا بعد محسوس ہوا کہ اس کام کے لۓ ایک مدرسہ کے قیام کی ضرورت ہے جو اس کام کا مرکز ہو جہاں انکے بچوں کو لایا جا سکے اب آپ اندازہ کیجۓ دیہات غربت کچے گھر جب مدرسہ کے قیام کی بات قاری صاحب نے کی تو لوگوں نے ہاتھ کھڑے کر لۓ نہ زمین نہ پیسہ کوڑی ہمتیں کرتے چکناچور ہو جاتییں کوششیں کرتے ناکام رہ جاتیں بیبسی کا عالم تھا حال بے حال تھا دل شکستہ تھا اسی یاس کے عالم میں کچھ اشعار چھلک پڑے ملاحظہ ہوں
تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے ہوتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی
نشیمن اب تلک جنگل میں اپنا ہو گیا ہوتا
شریعت کی اجازت گر مجھے حاصل کہیں ہوتی
وطن میں آکے رہنے کی مری بس ایک خواہش تھی
جہالت دور ہوتی اور کچھ حالت درست ہوتی
مسلمانوں کی بستی میں مکاتب تک نہیں قائم
مساجد گر کہیں ہیں بھی اذاں ان میں نہیں ہوتی
ہزاروں روپیہ شادی میں بے جا خرچ کرتے ہیں
خدا کے نام پر پیسہ تو کیا پائی نہیں ہوتی
خدا کا کوئی بندہ بھی نہیں ایسا نظر آتا
شریک درد ہو جاتا تو کچھ دل بستگی ہوتی
اشعار کیا ٹوٹے پھوٹے دل کی آہیں ہیں بالآخر مدرسہ کے لئے زمین کا انتظام ہوا آج مدرسہ دیکھنے لائق ہے مجھے بھی زیارت نصیب ہوئی اور قبر پر بھی گیا روداد اس کی یہ ہےکہ دستار بندی کے موقع پر ہمارے استاذ نے وہاں شامل ہونے کا ارادہ فرمایا ایک وین کرایہ پر لی گئ کچھ استاذ اور ذمہ دار لوگ وہاں جانے کو تیار ہوئے سب نے پیسہ جمع کیا ہمیں معلوم ہوا کہ مولانا اپنے مدرسہ جاتے ہیں بس پھیل گۓ کہ ہم ہو کا لئ چلو ہمہُک مدرسہ دیکھک ہے بلکنے لگے بالآخر ہمیں بھی بٹھا لیا گیا اور یوں
ریلا اک آیا اور بہا لے گیا ہمیں
جیسے کہ موج بحر پہ تنکے کا ہو سفر
یوں ہمارا جانا ہوا یہ بات تو زبردستی کی ہوئی۔
قیام مدرسہ کی جدوجہد
اب قیام کا کچھ ذکر پڑھ جائیے برسات میں پانی کے ساتھ ساتھ کچھ کنکڑیاں گاؤں میں آجاتی تھیں قاری صاحب جانتے تھے کہ کس کس مقام پر اکٹھی ہوتیں ہیں وہاں جاتے طلبہ جاتے مورنگ بٹورتے دھوتے اور تعمیر کے کام میں لاتے مزدوروں کی طرح بھٹی جھونکتے اینٹوں کی بھٹی میں آپ طلبہ اور پڑھانے والے محنت کرتے اور اس طرح اساتذہ و طلبا کے خون پسینے سے اسکی عمارتیں قائم ہوئیں مجھے تو اس کی ایک ہی مثال نظر آتی ہے کہ جس طرح مسجد نبوی کی تعمیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اینٹیں اٹھاتے تھے اور یہ شعر گنگناتے تھے
لئن قعدنا والنبی یعمل
لذاک منا العمل المضلل
دردمندی اور خدمت
آپ خود کو طلبہ کا ایک ادنی خادم سمجھتے تھے واقعہ سنۓ مدرسہ کے جو بیت الخلاء ہوتے ہیں انکی صفائی ستھرائی سے کس کی آنکھیں نہ چونکی ہوں گی بہر کیف ان کے مدرسہ میں بھی طلبہ تھے گاؤں کے تھے سو جس قدر گندا کر سکتے تھے خوب کرتے کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے لیکن صبح کو پائخانہ چمچماتا ملتا کسی کو دھونے والے کی خبر نہ ہوتی ۔زکریا صاحب سنبھلی کا بیان ہیکہ ایک دفعہ رات کے ڈھائی بجے نیند ٹوٹی رفع حاجت کو جاتے تھے کہ نظر پڑی کہ ایک صاحب بالٹی میں پانی بھر کے لاتے ہیں اور پاخانہ دھوتے ہیں لیکن آگے بڑھ کے اس خیال سے تقاضا نہ کر سکے کہ حال افشائی پر افسوس ہوگا بچارے دور سے دیکھتے رہ گۓ پھر دیکھا کہ قاری صاحب غسل فرما کر تہجد کو کھڑے ہوۓ ذرا اندازہ کیجۓ اس تہجد کا اور اس عمل کا-
ایک موقع پہ تو خود ان کی زبان سے نکلا کہ اس بچہ کا تو پیشاب پاخانہ دھویا ہے گاؤں دیہات کے طلبہ سے بڑی رعایت تھی وہ پڑھیں نہ پڑھیں مدرسہ میں پڑے رہیں ان کا قیام منظور تھا، کہتے تھےکہ یہی بچے اپنے گاؤں میں ایک دن اسلام کا نام روشن کریں گے آج ذرا ذرا سی بات پر اخراج کے نام پہ دھکے دے کر بچوں کو بے دخل کر دیتے ہیں نہیں سوچتے کہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت چیزیں چھوڑ کر سن کر سہہ کر جھیل کر مدرسہ آتے ہیں۔
ایثار استقامت قربانی ہمت اسفار کے بہت سے واقعات ہیں لیکن اتنا زیادہ آپسے پڑھوانا نہیں ہاں اتنا اور کہہ کے بات ختم کریں کہ قاری صاحب موزوں طبع تھے نعتیہ کلام خوب کہا ہے اور جابجا مدینہ اور مدینہ والے کا اشتیاق چھلک پڑا ہے مثلا
قیامت میں ہے وعدہ دید کا لیکن قیامت ہے
دل مضطر کی خواہش ہے یہیں ہوتی ابھی ہوتی
یا
تمنا ہے کہ گلزار مدینہ اب وطن ہوتا
وہاں کے گلشنوں میں کوئ اپنا بھی چمن ہوتا
بسر اب زندگی اپنی دیار قدس میں ہوتی
وہیں جیتا وہیں مرتا وہیں گورو کفن ہوتا
کلام ثاقب کے نام سے نعتیہ کلام طبع ہوکر مقول عام ہو چکا ہے۔
جاتے جاتے ایک سفر کا واقعہ سنتے جائیے کہ دین کا پیغام پہنچانے کی کیسی تڑپ سینہ میں تھی ایک دفعہ سائکل سے کسی کے ختنہ میں شریک ہونے جاتے تھے کسی نے ٹوکا کہ یہ کیا معمولی رسموں میں آپ اتنی مشکلیں اٹھا کر جاتے ہیں یعنی کیا ضرورت ہے؟ جواب دیا انہیں کے الفاظ درج کرتا ہوں کہتے ہیں کہ “ان کی ہگنی موتنی میں شریک ہو کر میں نے ان کو دین کی بات پہنچائی”۔ مختصر یہ کہ اپنا رویاں رویاں اور لمحہ لمحہ خدا کے دین کی بقا اسکے بندوں کی فکر اور خدمت میں کھپاتے لگاتے بالآخر اٹھائس اگست انیس سو ترانوے (1993)میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
انا للہ وانا الہ راجعون
اللہ کی رحمت ہو ان۔
Add Comment