بچے کسی بھی قوم،سوسائٹی اور معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں، ان کے فساد و بگاڑ پر معاشرے کا فساد اور بگاڑ موقوف ہوتا ہے۔ ہر دور کے اندر زندہ جاوید قوموں نے اپنی آئیندہ نسلوں کی تربیت، پرورش اور نشوونما کو اپنی قومی، تہذیبی زندگی میں اہم جگہ دی ہے۔ جب بھی کسی قوم نے اپنی نئی نسل کی تربیت سے غفلت، بے توجہی اور لاپرواہی برتی ہے انجام اس کا اچھا نہیں ہوا ہے۔
انسانی فطرت کا ایک خاصہ ہے کہ محکوم قوموں کے اندر حاکم قوموں کی نقل اتارنے، ان کے نقش قدم پر چلنے، ان کی تہذیب وثقافت کو اپنانے اور ان سے وابستہ ہر شئی کو معیاری قرار دینے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے، حاکم کے علوم،اس کی زبان، اس کے بود وباش کے طور طریقے، اس کا لباس اور وضع قطع، اسی کی تعلیم و تربیت غرض ہر شئ میں کمال کا کوئی عنصر، اور فوقیت کی کوئی جھلک اگر کہیں تسلیم کی جاتی ہے تو وہ حاکم قوم ہی کے دائرے میں رہ کر کی جاتی ہے، جبکہ محوکمیت کی ذلت جھیل رہی قوم کے اندر کی کوئی خوبی، کوئی فکر یا رائے ایک مضحکہ، ٹھٹھا یا “زمانے سے ناواقفیت” اور پاگلپن قرار دی جاتی ہے اور اس وقت تک کوئی نظر التفات اس کی طرف نہیں ہوتی جب تک کہ خود حاکم قوم ہی اس کو سند قبولیت سے نہ نواز دے۔
اس سلسلے میں آپ ان تمام مثالوں کو دیکھ سکتے ہیں جہاں مشرقی اقوام خصوصا عرب اور بقیہ مسلمانوں میں سے کوئی باصلاحیت و قابل شخص کچھ نیا پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، اپنی تخلیقی وتعمیری قوت کو سامنے لانا چاہتا ہے لیکن اپنوں کے بیچ اسے کوئی ریسپانس اس وقت تک نہیں ملتا جب تک کہ کوئی “,گوگل”یا “ناسا” یا “فیس بک” یا “مائیکروسافٹ” یا “ایپل” یا برٹش و امریکن گورمنٹ اس کے ٹیلنٹ کو پہچان کر اس کی عزت افزائی نہ کریں۔ پھر اچانک اس کی قوم کو یاد آنے لگتا ہے کہ ارے یہ تو ہمارا ہی مسلمان/ عرب بندہ ہے، یا ہندوستانی/ پاکستانی ہے۔
اسلامی سلطنت وتہذیب کے عروج کے وقت، دوسری اقوام کا یہی حال تھا، مشہور امریکی مؤرخ “ول ڈورینٹ” نے انسانی تاریخ پر لکھی گئی اپنی شاہ کار تصنیف ” تمدن کی کہانی” جو گیارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اس کی نویں جلد “دور ایمان” میں لکھا ہے کہ اندلس کے عیسائی پادری اور بشپ اس بات سے خائف اور افسردہ رہتے تھے کہ عیسائی نوجوان اپنے مراکز کے بجائے مسلم درس گاہوں میں جاتے ہیں، لیٹن کے بجائے عربی سیکھنے بولنے پر فخر کرتے ہیں، اسلامی طرز کا جبہ اور دستار ان کے نزدیک ایک اعلی ثقافت وتمدن کی علامت ہے، جبکہ اپنے قومی لباس، زبان، طرز زندگی، تعلیم گاہوں میں ان کے لئے دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔
آج کے زمانے میں مغرب اور اس کی ہمنوا طاقتیں اپنی فکر،تہذیب وتمدن، علوم وفنون، وضع قطع،لباس وزینت سب میں چھائی ہوئی ہیں، ان کی ہر چیز معیاری، ہر طریقہ ترقی یافتہ اور تمدن کا ہر ڈھنگ عمدگی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ دیگر اقوام کے پاس اپنی تہذیب وعلوم، فکر و فلسفہ کے لئے کوئی علیحدہ مستقل ایسا نظام نہیں ہے جس کو درجہ قبولیت، شہرت اور رواج میں ادنی مناسبت بھی اپنے مغربی حریف سے ہو۔
اس کی ایک بہت موٹی اور واضح مثال دنیا بھر میں اس وقت ذہنوں پر سوار ایک بیماری “کرونا” ہے، اس بیماری کی کیفیت،اس کے اثرات، اس کی حقیقت، اور اس کے نتائج کے سلسلے میں عالم عرب، عالم مشرق سب کے سب مغرب کی خاص طرز تحقیق اور تشریح کے آگے سر نگوں ہیں، اور ان کے پاس خود سے ان دعووں کو جانچنے پرکھنے کا یا تو کوئی نظام ہی نہیں ہےیا اگر کہیں اس کی کوشش ہوتی ہے تو اس کو سنا ہی نہیں جاتا۔ اب مغربی ادارے خواہ کتنے ہی متضاد بیانات دیں جو مشاہدات، تجربے اور بدیہیات کے بالکل خلاف جا رہے ہوں لیکن عوام اور حکومتوں کا ان کی تشریح پر ایمان بالغیب نہ متزلزل ہوتا ہے نہ ہونے دیا جاتا ہے۔ مثلا کل ہی کی “سی این این” کی رپورٹ ہے کہ کرونا وائرس کی 308 مخلتف شکلیں اور کہیں کہیں پانچ سو سے زائد شکلیں امریکہ ہی میں پائی جا رہی ہیں۔ وہیں امریکہ کے نمبر ایک اخبار “نیویارک ٹائمز” کے مطابق یہ مہاماری سات سال تک رہ سکتی ہے، مزید “سی ڈی سی” کی طرف سے ڈبل ماسک پہننے کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
ایک سال کے اندر اس سلسلے میں بیانات، اور دعووں کا جائزہ لیا جائے تو پھر کسی بھی عام نارمل انسان کا یقین “سائنس” سے فطرتا اٹھ جانا چاہئے، اگر سائنس یہی ہے تو، لیکن حاکم قوم کے ذہنوں اور دماغوں میں اندر تک نقش ہو چکے اثرات اتنی آسانی سے کہاں زائل ہونے والے ہیں اور دوسرے کسی بھی نریٹیو یا ڈسکورس کی کوئی اہمیت اس وقت تک کہاں ہو سکتی ہے جب تک کہ اتنی ہی طاقت ور تہذیب اور قوت استدلال سے اس کو بالکلیہ پلٹ نہ دیا جائے، جس کے آثار ابھی دور دور تک نظر نہیں آتے۔
یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ افریقی ملک تنزانیہ کے صدر “جان ماگو پھولی” نے جب کرونا کے ٹیسٹ پپیتے اور دیگر پھلوں پر کرائے تو ان مشینوں کے مطابق ان کو بھی یہ وائرس لگ چکا تھا، اس پر تنزانیہ کے صدر کے مطابق انہوں نے ایک دوسرے پڑوسی ملک “میڈا گاسکر” میں ایک گھاس دریافت پر اس کو منگوایا جس کا مشروب اس وائرس کا توڑ تھا،اور اس سے کافی لوگوں کو فائدہ ہوا، تنزانیہ نے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو اس سلسلے میں تعاون کی پیش کش کی، کہ اس گھاس کو وہ مفت میں دینے کے لئے تیار ہیں لیکن چالاک حاکم کہاں اس کو برداشت کر سکتے تھے کہ ان کے خاص سسٹم اور طریقے سے باہر کوئی غریب ملک وہ بھی بلیک اس کا کریڈٹ لے جائے لہذا ڈبلیو ایچ او نے “تحقیق” کے بعد اس طریقہ علاج پر “بے اطمینانی ” ظاہر کرکے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ علاج سائنس وعلم کے پیمانے پر کھرا نہیں اترتا”، اور “علاج کے لئے کوئی موثر شارٹ کٹ نہیں ہو سکتاہے”۔ لیکن ڈبلیو ایچ او کی وارننگ پر کوئی توجہ نہ دیتے ہوئے کانگو سمیت کئی ممالک نے اس “ہربل ٹانک” کو منگواکر استعمال کیا،اور اس کے کوئی مہلک نتائج ظاہر نہیں ہوئے جیسا کہ عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا، ہاں تنزانیہ اور وہ افریقی ممالک میڈیا سے غائب ہو گئے جنہوں نے اس کا استعمال کیا۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ اب ایسے ماحول کے اندر بچوں کی اسلامی تربیت کرنا،اس فکری و تہذیبی مغلوبیت کے ماحول سے ان کی حفاظت کرنا بڑی ہی ذمے داری اور محنت کا کام ہے، جس میں سرخ روئی ان شاءاللہ دارین کی کامیابی کی ضامن ہوگی، کیونکہ بچے ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں، ہمیں ان کو وہی عہد اور وراثت سونپنی ہے جو ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے ہم تک منتقل کی ہے۔
اس امانت کی ادائیگی کے لئے چند خطوط کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
بچوں کے حقوق
بچوں کا پہلا حق یہ ہے کہ ان ک نام بہترکھا جائے،خاص کر بچوں کے نام اسلامی ہیروز، مثالی شخصیات اور عظیم بزرگوں کے نام پر رکھے جائیں، خصوصاً انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام، ائمہ وعلماء اسلام کے ناموں کو بچوں کے لئے اختیار کیا جائے،اور پھر بچے کو اس کی ہم نام بزرگ وبرتر ہستی کے کارناموں،ان کے کردار، عادات واطوار، طرز زندگی، مسائل ومشکلات میں ان کے موقف اور طریقہ کار سے روشناس کرایا جائے۔
بچوں کے نام اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ابو بکر، عمر، عثمان،علی، خالد،ابو عبیدہ، طلحہ، حمزہ زبیر، عبدالرحمن، حذیفہ، عمار، بلال، مصعب،صہیب، عبداللہ، سعد، سعید، معاذ، عبادہ، ابو دجانہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے نام پر ہوں،اور بچے کے ذہن ودماغ میں ان کی شجاعت وبسالت،جواں مردی وسرفروشی، تعلق مع اللہ، مصائب وآلام میں صبر، نعمتوں اور خوشیوں میں شکر کی تصویر بیٹھا دی جائے، تو بچہ کا صاف معصوم ذہن ضرور ان ہستیوں کی زندگیوں،ان کے کارناموں کی کاپی کرنے کی کوشش کرے گا۔
امریکہ میں “ہارورڈ” جیسی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ایک میاں-بیوی “ڈینئل حقیقت جو” اور “ام خالد” اپنے بچوں کی مثالی تربیت کر رہے ہیں، انہوں نے اپنے بچوں کے نام “محمد، عمر، علی اور خالد” رکھے ہیں، ہر بچہ دیگر شخصیات کے علاوہ اپنے ہم نام بزرگ سے خاص انسیت رکھتا ہے، جو کہ فطری ہے، کیونکہ انسان اپنے ہم نام لوگوں کی جانب غیر ارادی طور پر بھی مائل ہوتا ہے،اور پھر جب والدین و سرپرست اس ہستی کے قصوں، کارناموں کو بچے کی یادداشت میں پیوست کردیں جس کے نام نامی پر اس کا نام رکھا گیا ہے تو بچہ از خود ان واقعات کو محفوظ رکھ کر اپنی زندگی میں برتنے کی کوشش کرتا ہے۔
ام خالد بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ اپنے دادا دادی کے ساتھ خوب محنت کرتے ہوئے لان میں گھاس پھاڑ رہے تھے اور پودوں کی کٹائی چھٹائی میں مدد کر رہے تھے، جب تھک ہار کر گھر میں آئے تو ماں نے پوچھا: “آج تو خوب مزے کئے”۔ بچوں کے کہا: کہ مزے کہاں خوب محنت کی۔
ماں نے کہا :”تب تو تھک گئے ہوں گے تم لوگ؟ اس پر تیسرے نمبر کے بچے چھ سالہ عمر نے مسکرا کر جواب دیا : “نہیں! میں نہیں تھکا، میری کمر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی طرح مضبوط ہے۔
دراصل اس بچے کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ماں نے سنا رکھا تھاکہ حضرت عمر کے بچپن میں ان کا باپ خطاب ان سے مکہ کی سخت شدت کی گرمی میں خوب کام کراتا تھا،ایک مرتبہ ان کی ایک پھوپی نے کہا : عمر! اگر تم چاہو تو میں تمہارے والد سے بات کروں کہ وہ تمہارا بوجھ کچھ ہلکا کر دیں، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ : “پھوپھی جان ایسا نہ کریں مجھے کم مشقت والا ہلکا کام نہیں چاہیے، بلکہ مجہے اپنی مضبوط کمر کے لئے سخت کام ہی چاہیے”.
“إني لا أرجو خفة الحمل،ولكن قوة الظهر”
یہ واقعہ بہت پہلے اس بچے عمر کو اس کی ماں نے سنایا تھا، لیکن بچے کے صاف ذہن میں اپنے آئیڈیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ مردانہ، ہمت و بہادری سے بھرپور صورت بیٹھ گئی کہ وہ خود کو ان کی طرح بچپن سے مضبوط، اور باہمت ہی دیکھنا چاہتا ہے۔
ام خالد کے بقول انہوں نے اپنے بچوں کو ان کے ہم نام ہستیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش،آپ کے وقت مکہ کے حالات، آپ علیہ السلام کے ان حالات کاسامنا کرنے سے متعلق واقعات، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بچپن میں قبول اسلام،رسول اللہ کے گھر ان کی پرورش، ان کے عظیم کارنامہ، حضرت عمر رضی اللہ کی زندگی، خلافت کا قصہ،ان کی عظمت وہیبت اور اسلام پسندی کے کارنامے،حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جنگی واقعات، ان جنگوں کے تفصیلی مناظر، حضرت خالد کی حکمت عملیاں سب از برکرا رکھی ہیں، اسلئے بچے ان واقعات کی روشنی میں اپنے رول ماڈلز کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔
اگر بچے کا نام فلمی اداکاروں، کھلاڑیوں، گویوں کے نام پر ہوگا تو اثرات بھی ایسے ہی پڑیں گے، آج کل بہت ہی “یونیک” نام کی تلاش رہتی ہے۔
٢) بچے کا اس کے بعد حق یہ ہے کہ اسکی تعلیم شروع کی جائے، تعلیم سے مراد یہاں وہ رسمی مدرسے یا سکول کی تعلیم نہیں ہے، بلکہ اس کا ابتدائی درس ہے جو اسے اس کے مقصد زندگی کو بتانے اور اس کے پیدا کرنے والے کے بارے میں بتائے، یعنی خدا کی وحدانیت، توحید کا علم. انبیاء علیہم السلام بھی اپنی اولاد کے لیے اگر کسی چیز کے بارے میں فکر مند رہتے تھے تو وہ خدا کی وحدانیت اور شرک سے اجتناب ہی تھا، حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں کو وفات سے ذراپہلے بلاکر جس بات کے بارے میں پوچھا وہ یہی خدا کوایک ماننا اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا تھا۔ حضرت لقمان علیہ السلام اور سبھی انبیاء کی تعلیم بھی یہی تھی۔
توحید کی تعلیم اگر گھر پر نہیں ہوگی تو بچے کے اوپر پہلا نقش تعلیم سکول کے سیکولر، لبرل نظام کا پڑے گا جو بچے کو آزادی، مساوات، انسانیت وغیرہ کے نام پر اسلام سے جڑی ایک ایک چیز سے متنفر یا ذہنی طور پر بعید کر دے گا۔
مثلا ایک سکول میں جانوروں کے حقوق کے نام پر بچوں کو ( جن میں مسلم بھی تھے)خنزیر سے ملوایا گیا اسے چھونے، پیار کرنے کو کہا گیا، اور یہ پروگرام جانور کے حقوق والی عالمی تنظیم “پیٹا” نے کیا، اس جیسے واقعات سے خنزیر کی حرمت، اس سے نفرت تو ختم ہوتی ہی ہے، بچے کو جانور کا پہلا حق یہ پتا چلتا ہے کہ اس کو ذبح کرنا غلط ہے،بس اسلام یہاں سے رخصت ہونا شروع ہوتا ہے۔
اور اس کے بالمقابل شرک اور کفر سے نفرت اور دوری کا احساس دلوں میں راسخ کیا جائے،اس میں ہر قسم کا شرک مراد ہے، بت پرستی کا شرک، خدا کی صفات کسی اور کے لئے عملا یا اعتقادا ثابت کرنے کا شرک وغیرہ۔
آج کل بت پرستی والے شرک کی طرف کوئی توحید کاعلم بردار یا معقول شخص دیانت داری کے ساتھ شاید ہی بڑھے، ہاں منافقت اور اپنے اغراض کی خاطر جان بوجھ کر کوئی اس کا ارتکاب کرے تو کرے، عقل ودانش کے ساتھ دلی اعتقاد ومحبت کے ساتھ نہیں کر سکتا۔
اس دور کا شرک اکثر دوسری شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، اپنی خواہشات، اھواء اور اغراض کی شکل میں اس کا روپ نمایا ہے، یہ “من کی خواہش” اور “جو مجھے بہتر لگے وہی صحیح ہے” اس دور کے معبود ہیں جو بت پرستی کے شرک کی جگہ لے چکے ہیں۔ بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ “اپنے من کی کرو” اپنی صلاحیتوں، اپنی قابلیت اور دلچسپی،اپنے شوق اور “پیشن” کو “فالو”کرو کسی کی اس سلسلے میں نہ سنو۔ مشہور فلم اداکار امیتابھ بچن نے اپنی پوتی کے نام جو خط لکھا تھا وہ اس کی بہترین عکاسی کرتا ہے،اس نے باقاعدہ اس بچی سے ہر قسم کے بندھن توڑنے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی تھی، اور یہ خط بہت سے اخبارات میں پہلے صفحہ پر چھپا تھا۔
ایک دوسرے اداکار عامر خان کا مضمون کچھ سال پہلے ہندی اخبار “دینک جاگرن” میں پڑھنے کا اتفاق ہوا، اس وقت عامر ٹیوی پر ایک “اصلاحی پروگرام” “ستیامیو جئتے” کے نام سے کر رہا تھا، عامر نے اس مضمون میں اپنے “فینز” خصوصاً لڑکیوں کو دعوت دی تھی کہ وہ پیار،محبت، شادی، تعلق ( حرام تعلق ہی مراد ہے) میں کسی کی خصوصا ماں باپ کی تو بالکل نہ سنیں” یہ آپ کی لائف ہے آپ کو گزارنی ہے” کوئی اور کون ہوتا ہے جو طے کرے کہ آپ کو کیا کیسے کرنا ہے۔
اپنے ان “رول ماڈلز” کا نئی نسل کیا کچھ اثر لے گی یہ بس سوچ کر ہی ایک دینی حمیت و غیرت والا شخص کانپ جاتا ہے، ماڈرن دنیا کے گرو گھنٹال ٹیکنالوجی کی ترقی کے ذریعے -جب سرحدوں اور ملکوں کا فاصلہ زمینی مسافت کو طے کرنے کے لحاظ سے کم ہوچکا ہے- عالمی سماج کے ارد گرد ایسا ایکو سسٹم قائم کر دینا چاہتے ہیں ایسا ماحول بنا دینا چاہتے ہیں کہ جس میں مخصوص طرز فکر اور معیارات کے سوا کچھ اور پنپنے ہی نہ پائے۔ یہ ایکو سسٹم خدا کی حدود کو توڑنے کے بعد ماں باپ کی سرپرستی، ان کی تربیتی قیود سے آزادی کا نہ صرف خواہاں ہے بلکہ ان کی اتھارٹی کو سرے سے نکار کر بچے کو “سوشالائز” کرنے اور “روادار” بنانے کے نام پر اس کو شیطان کے حصار میں دینا چاہتا ہے۔
شیطان کی سرکشی جہاں جہاں بڑھی ہے وہاں وہاں اس نے گھریلو تعلیم، ہوم سکولنگ، والدین کی تربیت کو ناکافی بلکہ مہلک قرار دینے کی کوشش کی ہے، فرانس کی مثال سامنے ہے، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس سے کھلواڑ کرنے کی ناپاک کوشش کے بعد اب مسلمان بچوں کی ہوم سکولنگ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، والدین اب بچوں کو گھر پر نہیں پڑھا سکتے، انہیں حکومتی/ پرائیویٹ سیکولر، لبرل اداروں میں ہی کم عمری سے پڑھنا ہوگا جہاں مذہب یا خدا کاسرے سےوجود ان کی تعلیم کے کسی حصے میں نہیں ہوگا،ہاں اتنی فیاضی اور فراخ دلی دکھائی گئی ہے کہ 18 سال کی عمر میں “بالغ ہونے کے بعد” پھر چاہے جو مذہب “اپنی چوائس” سے اختیار کرے، جو یقیناً بے دین، الحاد اور لبرلزم ہو تو ہو اسلام تو بالکل نہیں ہوگا۔
امریکہ کی ایک ماہر تعلیم نے حال ہی میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ والدین بچوں کو گھر پر تعلیم دیکر “بگاڑ” رہے ہیں بچوں کے اندر اس تعلیم سے “تشدد” “عدم رواداری” اور دوسرے مذاہب،عقائد اور افکار کے حامل افراد کے تئیں ایک قسم کی کراہیت اور بعد پیدا ہونے کا شدید امکان ہے، لہذا والدین پر پابندی لگاکر بچوں کو سرکار کی نگرانی میں چلنے والے مراکز، سینٹرز اور سکولوں میں ہی ابتدائی تعلیم جبری دلوانےکا انتظام ہونا چاہئے۔ہندوستان میں نئی تعلیمی پالیسی اس کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔
یہ نظام بالکل نمک حرامی، نافرمانی،احسان فراموشی اورخالص خود غرضی پر مبنی ہے،جو خالق ومالک کے بعد ان ہستیوں کو انسان کی زندگی سے خارج کرکے ان کے وزن کو کم کرنا بلکہ ختم کر دینا چاہتا ہے جو اسکو دنیا میں لانے کا سبب بننے کے باعث فطرتا بچے کے سب سے بڑے محسن ہوتے ہیں، جن سے بہتر اولاد کے لئے کوئی سوچ ہی نہیں سکتا، اس کے مقابلے میں یہ اس سٹیٹ اور سماجی اداروں کو بچے کی سوشل کنڈیشننگ کرنے، اس کی ذہنی تربیت کرنے کا حق دیتا ہے جو فرد کو صرف اپنے اغراض کے لئے استعمال ہونے والے ایک پرزے سے زیادہ نہیں سمجھتے ۔
٣)اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنے کے بعد سب سے زیادہ زور اور تاکید والدین کے حقوق، ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور احسان مندی کے بارے میں ہی آئی ہے، کیونکہ خدا کے بعد ان کا احسان سب سے زیادہ ہے، پھر انہیں کے ہاتھوں میں اس کے اسلام وایمان کی بقا، اس کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے،لقمان علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو بشرک کی نفی کے بعد بھی والدین کے حقوقِ کا ذکر آیا، اس میں یہ بھی صراحت کی گئی کہ خدا کی معصیت،اس کی نافرمانی میں والدین کا بھی کہنا نہیں ماننا چاہیے،اس کے علاوہ دنیا کے کاموں میں ان کی رضا سب سے مقدم ہے۔
٤) بچے کے حقوق میں چوتھی تعلیم یہ دینی چاہئے کہ سات سال کی عمر میں نماز کا حکم اور دس کی عمر میں ہلکی پھلکی پٹائی بھی کی جائے۔ دور حاضر میں پٹائی کی بات بڑی ہی شاق گزرتی ہے،آج کل تو بچے کو ادب سکھانا، تنبیہ کرنا، کسی خاص راستے پر اس کو چلانا سب معیوب سمجھتے جاتے ہیں، کیونکہ بچے کا “ٹیلنٹ” اس سے “متاثر” ہوتا ہے،اس کا “کانفیڈینس” اور “مورل” ڈاؤن ہو جاتا ہے، اس کے جذبات مر جاتے ہیں، قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک عرب فلسفی نے تو بچوں کی ماں کے اس سوال پر کہ بچے نماز کی چوری کرتے ہیں یہ جواب دیا کہ بچوں کو اصل نماز کا مطلب، اس کا فلسفہ،اس کی اہمیت غرض نظریاتی لحاظ سے سب کچھ سمجھا دو، اور اس کے چھوڑنے کے نقصانات سے انہیں آگاہ کردو پھر وہ نماز نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ انسان جس چیز کو مفید سمجھتا ہے اس کے لئے عمل کرتا ہے اور جسے نقصان دہ سمجھتا ہے اس سے دوری وپرہیز کرتا ہے۔
اول تو یہ فلسفہ ہی غلط یے، کہ کسی چیز کے فائدے و نقصان کا علم انسان کو اس کے بارے میں حتمی طور پر فائدے کی راہ چننے پر مجبور کرتا ہے، کیونکہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک چیز کے صریح نقصانات کے علم کے باوجود اس کی طرف چلتے ہیں اور بہت سی مفید چیزوں کو ترک کرتے ہیں۔
دوسرے چھوٹے بچے جس شعور و آگہی کے درجے میں ہوتے ہیں وہاں پر ان کو عقلی دلائل، حکمتیں، چیزوں کی علتیں واسباب سے کم ہی سروکار ہوتا ہے، وہ صرف جذبات، ڈر، خوف، یا شوق سے چیزیں کر لیتے ہیں، اور مختلف بچوں پر مختلف طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں، بعض اوقات کوئی بچہ خود ہی شوقین ہوتا ہے،جبکک کچھ بچوں کو سختی کرکے عادی بنانا پڑتا ہے بعد میں شوق وڈر کے ملے جلے جذبات سے وہ مستقل نماز پڑھ لیتے ہیں۔ یہ اتنی عام اور بدیہی بات ہے جس کا مشاہدہ رات دن ہوتا ہے، لیکن لوگوں کی زندگی میں ضرورت سے زیادہ بڑھتے سٹیٹ اور ٹیکنولوجی کے دخل نے انہیں دنیا بھر کے “ایکس پرٹس” اور “ماہرین” کی آراء سے متعارف کرا دیا ہے اور خوامخواہ یہ مفروضہ گھڑ لیا گیا کہ بچوں پر تادیبی عمل اور سرزنش “آؤٹ ڈیٹڈ” ہے، اور ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو دبانے والی ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ حد سے تجاوز کرکے مار پیٹ نہ صرف مناسب ہے بلکہ ناجائز بھی ہے، نہ کوئی اس کے حق میں ہو سکتا ہے، لیکن ہلکی پھلکی سرزنش جس سے بچہ کوتاہی کرنے اور غلط کام کی طرف بڑھنے سے باز رہے بہت ضروری ہے۔
٥) بچے کو یہ سکھایا جائے کہ جہاں کہیں وہ برائی ہوتے دیکھے اپنی بساط بھر اس کو روکنے کی کوشش کرے، اور جن چیزوں کو اچھی جانتا ہے انہیں دوسروں تک پہونچاکر ان کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب دے، اس عمل کو شریعت کی اصطلاح میں امر بمعروف، نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ راسخ کر دیا جائے کہ معاشرے کو اگر بہتر، صالح اور تعمیری بننا ہے تو اسے اپنے افراد کی سرکشی، ان کی بغاوت، ان کے جرائم پر روک لگانی ہوگی، کسی بھی بری عادت اور گندگی کو سماج میں نظر انداز کرکے پنپنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔
آج کا مجموعی ماحول اس فریضہ کی ادائیگی سے انسان کو “ججمنٹ” “دوسرے کی زندگی میں دخل اندازی” کے نام پر نہ صرف روکتا ہے بلکہ اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے، خاص کر مذہبی معاملات جن کو انسان کا “پرسنل میٹر”کہا جاتا ہے اس میں دوسرے کے لئے کوئی “انٹرفیئر” کی گنجائش ہے ہی نہیں، یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مذہب پر عمل کرنے میں نہ رہنمائی کی ضرورت ہے نہ کسی روک ٹوک کی،اگر ایک شخص غلط کر رہا ہے تو یہ “بندے اور اللہ کا معاملہ” ہے کہہ کر دوسرے کو جھڑک دیا جاتا ہے،یا پھر “اللہ دلوں کو دیکھتا ہے” کا نہایت بھونڈا استدلال ہر جگہ چپکا دیا جاتا ہے، مذہبی عقائد اور عبادات تک کی من مانی تشریح کوئی بھی “سلیبرٹی” کر دیتا ہے۔ مشہور فلم اداکار شاہ رخ خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ “نماز دل سے پڑھی جاتی ہے” لہذا کسی دوسرے کو اختیار نہیں کہ وہ میرے نماز نہ پڑھنے پر اعتراض کرے۔
ایسے ہی یہ عام رواج چل پڑا ہے کہ کسی بھی غیر مسلم یا اسلام کے بنیادی عقائد کو نہ ماننے والے (مسلم نام والے) شخص کے انتقال پر دعائے مغفرت دی جاتی ہے، اگر یہاں ٹوکا جائے تو فورا “اسلام میں تنگ نظری ہے” اور “وہ اپنے خدا کے پاس جا چکا ہے تمہیں کوئی فیصلہ کرنے کا کیا حق ہے” کا جواب ملتا ہے۔
بچوں کی تربیت کے دوران ایسے سینکڑوں مواقع بچوں کے سامنے پیش آسکتے ہیں، خاص کر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک ان کی رسائی کے بعد، جو کہ ہر حال میں ہونی ہے، آپ انہیں اس سے روک ہی نہیں سکتے، ہاں اچھے برے کی تمیز اور اس کا ایک پیمانہ دے سکتے ہیں،ان کے سامنے واضح کر دینا ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیم، اس کے احکام میں اتھارٹی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،اور انہوں نے ہمیں لوگوں کے اعمال کو جج کرنے کا ایک معیار دیا ہے، جو اس سے ہٹے گا ہمارا فرض ہے کہ اسے روکنے،سمجھانے کی کوشش کریں،نہ رکنے پراس کی سزا اور انجام بتادیں۔ اسلام کسی شخص کی ذاتی خواہشات،اور تمناؤں کا نام نہیں ہے کہ اس کے من مطابق موجودہ ماحول میں فٹ ہونے کے لیے وہ کٹائی چھٹائی کو قبول کرے، ملا کااسلام اور اللہ کا اسلام جیسی کوئی چیز نہیں ہے، اسلام اللہ کا ہے جسے سمجھ کر ملا لوگوں کو بتاتا ہے۔
٦) مصائب وپریشانیوں پر صبر کرنا بچے کو سکھایا جائے، کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہیں، ہمارے اعمال کی کرتوت ہیں، اور ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے، اگر کوئی پریشانی ہے تو یہ رب کی طرف سے آزمائش کا زمانہ ہے،وہ تمہیں خوف، بھوک، مال کی کمی، عزیز واقارب کی وفات اور آمدنی وغیرہ میں نقصان سے آزماتا یے، ان میں صبر کرنے والوں کے لئے انجام کار خوشخبری ہے جو اس بات کا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی جانیں اللہ کی امانت ہیں اور وہ اس کے پاس پہونچ جانے والی ہے۔
موجودہ دنیا کے اندر ذرا پریشانی میں پڑتے ہی انسان سوال کرنے لگتا ہے کہ خدا اگر غفور ورحیم ہے تو وہ حالات کو کیوں صحیح نہیں کردیتا، اسے کیاملتا ہے لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر؟ اس قسم کی چیزوں سے بہت زیادہ واسطہ پڑتا ہے جو بظاہر دلوں کو اپیل کرتی ہیں لیکن ان کے پیچھے خدا کا انکار یا اس پر اعتراض چھپا ہوتا ہے جو ایک مسلمان کے عقیدے کے لئے مہلک ہے۔ اس سلسلے میں مزید پڑھنے کے لئے یہ مضمون دیکھ سکتے ہیں۔
مسئلہ خیر وشر: وصی میاں خان رازی http://urdu.qaram.in/archives/3317
اس کے علاوہ بچے کو تکبر وفخریہ انداز میں چلنے، اٹھنے بیٹھنے میں مغرور رویہ اپنانے سے باز رہنے کی تلقین کی جائے، کیونکہ بڑائی خدا کے سوا کسی کی شان نہیں ہے نہ زیب دیتی ہے،جس فانی انسان کو اپنے اگلے پل کے انجام کا علم نہیں کس چیز پر گھمنڈ کرنا چاہتا ہے؟
آج “کانفڈینس”اور “خود اعتمادی” کے نام پر رعونت، تکبر اور عجب کا جذبہ دل دماغ میں ٹھونسا جاتا ہے، “لیک سے ہٹ کر چلنا” اور “آؤٹ آف دی باکس” سوچنا اور عمل کرنا اعزاز اور فخر کی چیز بن گیا ہے، مشہور اداکار، مارشل آرٹ اور کنگفو کا ماہر”برس لی ” کہتا ہے کہ میں رولز وقوانین کو فالو نہیں کرتا، کامیابی کا پہلا رول ہی یہی ہے کہ رولز وقاعدوں کو توڑ دیا جائے، جو “لیجنڈ” اور “عبقری” ہوتے ہیں وہ ہمیشہ دھرے سے ہٹ کر اپنی راہ بناتے ہیں۔
بظاہر یہ نظریہ بہت خوبصورت اور بھلا معلوم ہوتا ہے،اور واقعی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرکے ترقی کرنے میں بھی کوئی حرج بھی نہیں ہے، لیکن کھود کرید کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن قوانین اور رولز کو توڑنے کی بات ہو رہی ہے جن بندشوں سے آزادی کانعرہ لگاکر نکلنے کی دعوت دی جا رہی ہے وہ مذہب خصوصاً اسلام ہی کی بندشیں ہیں، کیونکہ کسی اور مذہب پر اسکی زد اتنی نہیں پڑتی، ویسے بھی دوسروں کے یہاں اکثر مذہب صرف ایک “اندرونی پرسنل میٹر” ہی کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور انسانی قوانین ورولز کو توڑنا نہ صرف معیوب ہے بلکہ قابل سزا بھی ہے۔ اسلام کی نظر میں خود اعتمادی وہ صحیح ہے جس میں اعتماد خدا کی ذات سے حاصل کیا گیا ہو، ورنہ تکبر اور خود اعتمادی کے حدود فاصلہ بہت ہی دھندلے پڑ جاتے ہیں، خدا کو انسان کی اکڑ،اس کا بڑپن اور مغرور انداز بالکل بھی پسند نہیں ہے، یہ صرف اسی ذات کی خصوصیت ہے جس میں کوئی شریک نہیں۔
اسی طرح بچوں کو آواز و لہجے میں نرمی اور شائستگی کی تعلیم بھی دی جائے، بلا ضرورت بلند آواز میں بات کرنا خاص طور پر بڑوں اور بزرگوں کے سامنے بدتمیزی اور شریعت کے مزاج کے خلاف ہے، ایسی آوازوں کو گدھے کی آواز کہا گیا ہے۔
لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی تھیں ان کی طرف اس تحریر میں توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے، اس لئے تذکیری پہلو کے غالب آجانے سے یہ تحریر کے بجائے تقریر سے قریب ہے، لیکن افادیت کے لحاظ سے تحریر کے مثل ہونے کے پیش نظر اس کو یہاں پوسٹ کیا جا رہا ہے۔
Add Comment