محمد عمیر
دی برین یعنی دماغ، کتاب کے مصنف David Eagleman ڈیوڈ ایگلمین کے بقول کہانی ہے آ پ کی اور میری۔ کتاب کی سلاست اور مصنف کے لکھنے کے انداز واسلوب ایسا ہے کہ بس اسے پڑھتے چلے جائیے اور دماغ کی عجیب و غریب اور پر اسرار دنیا میں الجھتے، پھنستے اور ڈوبتے چلے جائیے۔
علم الاعصاب (Neuro Science) کے دقیق مسائل کو مصنف نے بڑے ہی دلچسپ اور عام فہم انداز میں غیر سائنسی قارئین کے لیے بیان کیا ہے۔ ویسے تو یہ کتاب الماری میں قریب ایک سال سے گرد کھا رہی تھی لیکن اسے فوری طور پر پڑھنے کی تحریک بل برائسن Bill Brysonکی کتاب “دی باڈی” The Body پڑھنے کے بعد ہوئی۔ بل برائسن نے اپنی کتاب میں تمام اہم انسانی اعضاء کے متعلق بڑے نرالے انداز میں لکھا ہے، دماغ کے متعلق لکھتے ہوئے انہوں نے ڈیوڈ ایگلمین کی کتاب “دی برین” کا بھی ایک سے زائد بار حوالہ دیا، بل برائسن کےنداز تحریر میں چاشنی اور جاذبیت زیاد ہے، فن قصہ گوئی میں وہ ماہر ہیں، انسانی جسم کے حیاتیاتی نظام کو بھی ایک دلچسپ کہانی میں انہوں نے تبدیل کر دیا، لیکن ایک تو وہ ماہر علم الاعصاب (Neuroscientist) نہیں اور دوسرے انکی کتاب میں محض ایک انسانی عضو کے سلسلے میں تفصیل سے لکھنے کی گنجائش نہیں تھی اس لیے بہت سی باتیں تشنہ رہ گئیں اور ایک زبردست تحریک پیدا ہوئی کسی نیوروسائنٹسٹ کے قلم سے نکلی کتاب کو پڑھ ڈالنے کی۔ “دی برین”The Brain اتنے دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے کہ ایک ٹی وی سیریز باقاعدہ بی بی سی والوں نے کتاب کے مشمولات پر مبنی بنا ڈالی جو کہ کافی مقبول بھی ہوئی۔
چند اہم بنیادی سوالات
ایسے بنیادی سوالوں پر تمام ابواب کے عنوانات قائم کیے گیے ہیں جو ہر دائرۂ فکر کے زیر بحث ہیں۔ ابواب کے عنوانات کچھ یوں قائم کیے گیے ہیں، “میں کون ہوں” ، “حقیقت کیا ہے” ، “حاکمیت کس کی ہے” وغیرہ۔ ان سوالات کے جوابات فلسفہ و مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص مادہ پرستانہ نیورو سائنس (Neuroscience) کے نقطہ نظر سے دیے گئے ہیں۔ مصنف کے مطابق اس تین پاؤنڈ اور بارہ سو سی سی کے انسانی دماغ کے خوردبینی ریشوں اور اسکے برقی تانے بانوں میں نوع انسانی کی تاریخ اور مستقبل پنہاں ہیں۔
زمین سے آسمان تک
عالم حیوانات میں نوع انسانی ہی صرف ایسی ہے جہاں بچہ غیر مکمل دماغ کے ساتھ دنیا میں آتا ہے، اس غیر مکمل دماغ کے اپنے کچھ خطرات ہیں مثلاً اس کے ابتدائی چند سال مکمل محتاجگی کی حالت میں گزرتے ہیں۔ لیکن اس خدشے کے ساتھ اسے بہت سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، جیسے گزرتے وقت کے ساتھ انسانی ذہن کی ترقی، اسکی شخصیت کی مسلسل تعمیر، مختلف خیالات و افکار کا اس کے ذہن میں بننا ،جاگزیں ہونا، مختلف ماحول کے اندر اسکا ڈھلنا، ہر گھڑی کسی نئی چیز سے آشنا ہونا ،اسے سمجھنا اور اس سے سیکھنا، زمین پر گھٹنوں کے بل چلنے سے شروع کرنے سے سمندر میں غواصی اور فضا میں ہوائی اڑان بھرنا، اور اسی طرح کے بے شمار مختلف فوائد جو اس کے غیر مکمل دماغ کی مسلسل تعمیر و تکمیل، اس کے ذہنی خلیات کی پیہم تعدیل اور اس کے تانے بانے کی پے در پے تشکیل سے حاصل ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ کے ارتقاء میں کلیدی کردار نیورون (Neuron) کی تعداد سے زیادہ انکے درمیان پیدا ہونے والے روابط (Synapses) کا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹے بچے میں اور ایک بردبار بزرگ میں دماغی خلیات کی تعداد کے اعتبار سے کوئی واضح فرق نہیں ہوتا، جو شے انکے عقلی و شعوری معیار کو مختلف بناتی ہے وہ یہی سائنیپسز یا روابط ہیں، چھوٹے بچے کے دماغ میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تقریباً بیس لاکھ نئے روابط پیدا ہوتے ہیں جو بچے کے جوان ہوتے ہوتے دو ہزار خرب کے قریب ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد ان روابط میں مستقل تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ عقل و فکر کی پختگی تک پچاس فیصد روابط تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں اسی مستقل تبدیلی کو مصنف نے قوت شکل پذیری ( Brain Plasticity ) سے تعبیر کیا ہے ۔مصنف نے بہت سی دلچسپ معلومات دماغی “لچک” (flexibility) اور “قوت شکل پذیری” کے حوالے سے دی ہیں۔
دلچسپ معلومات
کیسے مستقبل کے تصورات ماضی کی یادداشت پر مبنی ہوتے ہیں، انسان اپنی یادداشت پر کتنا بھروسہ کر سکتا ہے، کیا کبھی اسکی یادداشت اسے دھوکے میں رکھ سکتی ہے اور رکھ سکتی ہے تو اسکی بنیاد پر لیے جانے والے فیصلے کتنے قابل اعتماد ہیں۔ حس تحرک اعضاء (Proprioception) کے نظام کے تحت کیسے انسان کو آنکھ بند کر کے بھی انداذہ رہتا ہے کہ اسکے ہاتھ پاؤں کس جگہ پر ہیں، مڑے ہوئے ہیں یا سیدھے ہیں، حتی کے نیند کی حالت میں بستر سے گرنے سے پہلے اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ بستر کی حدود تجاوز کر چکا ہے۔ انسان کی لا شعوری اور شعوری حالات میں کیا فرق ہے، شعوری طور پر کسی شے کو سیکھنے کے بعد اسے لاشعور کے اندر دفن کر دینے کے کیا نتائج ہوتے ہیں، کیا علم نفسیات کی مشہور گتھی “مسئلہ ٹرالی” (Trolley Problem) نیوروسائنس کی روشنی میں سلجھائی جا سکتی ہے، کیا ایٹم بم کا بٹن ملک کے صدر یا وزیراعظم کے جگری دوست کے سینے میں ہونا چاہیے، قتل عام کیوں ہوتا ہے، بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کیوں کی گئی، کیوں اس دور میں بڑی سطح پر خون بہانا انسان کے ضمیر پر بھاری نہیں ہے۔کیا انسان اس فانی جسم کے فنا ہو جانے سے ختم ہو جاتا ہے یا اس کے باقی رہنے کے کوئی امکانات ہیں، کیوں انسان شعور جیسی قیمتی چیز کو بالائے طاق رکھ کر پورے دن کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی وقت نیند کی حالت میں گزار دیتا ہے، کیا اسکا ایسا کرنا عقلمندی ہے۔ کیا انسان موت سے فرار ہو سکتا ہے، بڑے بڑے سائنسدانوں کا صرف اس جسم کے کام کرنا بند کر دینے کی وجہ سے اپنے اعلیٰ درجے کے شعور کے ساتھ نسیا منسیا ہو جانا کیا زیادتی نہیں ہے، کیا کسی ایسے جسم کی تلاش کی جا سکتی ہے جس میں انسان اپنے شعور کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے، یا ممکن ہو تو اپنے اسی شعور سے اجسام متعددہ کنٹرول کرے، اور چونکہ یہ جسم اسی دنیا کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے لہذا دوسرے سیاروں کے حساب سے مختلف اجسام ڈیزائن کرے اس طرح ایک ہی انسان کا ایک جسم اس دنیا میں ہو، ایک چاند پر، ایک مریخ پر ایک ثریا پر۔ اس طرح کے اور بہت سے دلچسپ سوالات کے جوابات نیوروسائنس کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کا ہر صفحہ انوکھی معلومات سے لدا پھدا ہے۔
مسئلہ روح و جسم
مصنف کی نظر خالص مادہ پرستانہ ہے، کتاب میں انہوں نے غیر مادی عقل کی بحث سے کوئی زیادہ تعرض نہیں کیا، بس ڈیکارٹ (René Descartes ) کے حوالے سے مسئلہ روح و جسم (Mind-Body Problem) کا سرسری تذکرہ کر دیا ہے، اور اسے یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ ڈیکارٹ ذرا نیورولاجی وارڈ کا ایک چکر کاٹ لیتے تو انہیں اندازہ ہو جاتا کہ مادی دماغ میں ذرا سی تبدیلی خوا ہ وہ کسی حادثے کے سبب ہوئی ہو یا اور کسی سبب سے، انسانی شخصیت اور عادات و اطوار میں غیر معمولی انقلاب پیدا کر دیتی ہیں۔
لیکن خود مصنف ہی کتاب میں ایک جگہ نیوروسائنس کے سب سے بڑے مسئلے “عقدۂ ارتباط” (Binding Problem) کا تذکرہ کرتے ہیں اور نا دانستہ طور پر ایک غیر مادی عقل، روح اور شعور کی ضرورت خواہ لفظوں میں نہیں لیکن بین السطور قبول کر ہی لیتے ہیں۔ جس طرح بین الاقوامی بازار میں تیل خریدنے کے لیے عام کرنسی (Common Currency) ڈالر ہے اسی طرح دماغ کی کامن کرنسی الیکٹرک سگنل (Electric Signal ) ہیں، یعنی جیسے روپیہ، لیرا، دینار وغیرہ مختلف کرنسیوں کو آخر ڈالر میں بدلنا ہوتا ہے اسی طرح دیکھنے کے لیے نوری ذرات (Photons) کو، سننے کے لیے ارتعاش (Vibration) کو ذائقے اور بو کے لیے مختلف مرکب سالمات ( Molecules) کو بالآخر دماغ تک پہنچنے کے لیے الیکٹرو کیمکل سگنل میں تبدیل ہونا پڑتا ہے، اور پھر دماغ اسکی تشریح (Interpretation) کرتا ہے کہ آپنے کیا دیکھا، سنا،چکھا، سونگھا یا محسوس کیا۔ دقت اس میں یہ ہے کہ ان تمام احساسات کے لیے دماغ کے الگ الگ حصے مقرر ہے لیکن پھر بھی کس طرح ہمارے دماغ میں ایک کلی تصور (Unified Perception) پیدا ہو جاتا ہے، ہمیں ایک کلی شعوری ادراک یا تجربہ (Unified Conscious experience) کیسے ہوتا ہے, کیوں ہمیں ایک گاڑی کے گزرنے پر ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ایک گاڑی کے گزرنے کا تجربہ کیا ہے، نہ کہ یہ کہ ایک مجسمے کے گزر جانے کا الگ تصور دماغ قائم کرے اس کے رنگ کا الگ، اس سے نکلنے والی آواز کا الگ اور اسکے دھویں کی بو کا الگ اور پھر انمیں باہمی کوئی ربط نظر نہ آئے۔ اگر انسانی جسم کسی اندھے قانون اور کسی غیر عقلی ارتقاء کا نتیجہ ہوتا تو واقعۃ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ اس میں ایک با بصیرت روح موجود ہے جو ایک سمیع بصیر رب نے پھونکی ہے اس وجہ سے اس میں ارتباط ہے، معقولیت ہے، وحدت ہے، سالمیت ہے۔
اس قسم کی بات کو مادیین “خدائے خلا (God of the gaps)” کا نام دے کر رد کرتے ہیں، یعنی جو سمجھ نہ آیا، سائنس و منطق میں جو خلا باقی رہ گئی اسے پر کرنے کے لیے خدا کے وجود کو “گڑھ” لیا، ان کے مطابق اسکی ضرورت نہ تھی، سائنس رفتہ رفتہ اس خلا کو خدا کے بغیر پر کر لیتی۔ لیکن اگر غیر مادی عقل و روح اور مادی دماغ کے پس پردہ بحث کی اچھی طرح چھان پھٹک کی جائے تو معلوم ہو جائے گا کی سائنس کی بنیاد میں ہی نہیں ہے غیر مادی روح اور عقل کا سراغ لگانا (ملاحظہ ہو “معمۂ شعور ” )-
کیا نمودی مادیت (Emergent Materialism) شعور کے مسئلے کو حل کر سکتی ہے؟
کتاب کے آخر میں مصنف نے دوبارہ عقل و شعور کی مادی توجیہ کی کوشش کی ہے۔ خالص مادے سے شعور و احساس و جذبات کیسے وجود میں آ گئے اسکا کوئی معقول جواب مصنف کے پاس نہیں ہے، مجبوراً انہیں پناہ لینی پڑی نظریہ نمودی مادیت ( Emergent Materialism ) کی، جس کے مطابق مادے کے عناصر اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے بعض خصوصیات کے حامل نہ ہوں لیکن ایک خاص تناسب اور ترکیب میں انکے ملنے سے ان میں وہ خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جس سے وہ بنیادی طور پر عاری تھے، مثلأ پانی اپنی مادی بنیاد کے اعتبار سے اگرچہ آکسیجن اور ہائڈروجن کا ملغوبہ ہے اور ہائیڈروجن اور آکسیجن میں وہ خصوصیات موجود نہیں ہیں جو اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے پانی میں ہے۔
مصنف نے اسی کو بنیاد بنا کر یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ دماغی خلیات (Neurons) اور انکے نیٹورک اپنی تمام تر پیچیدگیوں، جال جنجالوں، بھول بھلیوں کے باوجود کہیں سے بھی اس بات کا پتہ نہیں دیتے کہ اس میں سے شعور جیسی البیلی چیز کیسے نمودار ہو جاتی ہے چونکہ انکی حد تو صرف کھربائی و کیمیائی اشاروں (Electro chemical signals) کی ارسال و ترسیل تک ہے، لیکن جیسے پانی میں وہ صفات پیدا ہو جاتی ہیں جو اس کے بنیادی اجزاء ترکیبی میں نہیں ہوتی اسی قسم کا معاملہ دماغ اور انسانی جسم کے ساتھ بھی ہے، نیز یہ معاملہ ہر مادی شے کے ساتھ ہے یہاں تک کے ایک شہر بھی ممکن ہے شعور رکھتا ہو اور ہمیں آئندہ اسکا ادراک ہو۔
خالص مادہ پرست ذہن کی یہی دشواری ہے کہ وہ کبھی کسی “کیسے” کا صحیح جواب نہیں دے سکتا۔ شعور و احساس و جذبات کا سوال الگ نوعیت کا ہے، یہ تمام چیزیں غیر مادی ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ مادے کے باہمی طور پر ملنے سے کوئی غیر مادی چیز کیسے پیدا ہو گئی، نمودی مادیت کے حوالے سے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں چاہیں وہ پانی کی مثال ہو یا کوئی اور ان سب میں مادی اشیاء کے باہمی امتزاج کے نتائج میں مادی خصوصیات کا ہی ظہور ہوتا ہے کسی غیر مادی خصوصیت کا نہیں۔
مصنف نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی حوالہ دے کر کہا ہے کہ جس طرح وہاں خالص مادے سے عقل پیدا ہو رہی ہے اسی طرح کچھ انسان کے دماغ میں بھی ہوتا ہے لیکن آگے خود چائینیز روم تھوٹ ایکسپیریمینٹ ( Chinese room thought experiment) کے تذکرے سے اس توجیہ پر شبہات کا اظہار ادھورے من سے کیا اور اس ذہنی تجربے کو کسی ٹھوس دلیل سے رد نہ کر سکا، نہ ہی اپنی ایک خاص ذہنیت کے سبب اسے قبول کر سکا اور آخری ملجأ نمودی مادیت کو ہی ٹھہرایا۔ چائینیز روم تھوٹ ایکسپیریمینٹ اور غیر مادی عقل و شعور اور مادی دماغ کی کشمکش کے متعلق مزید معلومات کے لیے قارام پر شائع ہو چکے مضمون معمۂ شعور کو پڑھا جا سکتا ہے۔
افکار کا سیل رواں یا کوڈنگ کا معمولی سا دھواں
ایک موقعے پر مصنف مصنوعی عقل (Artificial Intelligence) اور انسانی عقل کے درمیان تفاوت، مصنوعی عقل کی حدود اور اسکے انسانی عقل کے قریب بھی نہ ہونے کی صراحت آئی کب (iCub) کی مثال سے کرتے ہیں، آئی کب ایک روبوٹیائی طفل (Robotic Kid) ہے جسکے ذہن کو انسانی بچوں کی طرح بیرونی تعلیم کے ذریعے نشو نما دینا تھا، مصنف نے اس کے ساتھ کافی وقت بتایا اور آخرکار مایوسی کے ساتھ یہ نتیجہ نکالا کی یہ آئی کب کسی بھی قسم کے جذبات، احساسات اور شعور سے عاری ہے، یہ وہ دماغ ہی نہیں جس میں افکار کا سیل رواں جاری ہو، خیالات کی ریلم پیل ہو، احساسات اور جذبات کے چشمے ابل رہے ہوں بلکہ اس میں تو بس انسانوں کے ذریعے کی گئی کوڈنگ کے خطوط جاری ہیں۔
کتاب کے سلسلے میں لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن مضمون کی طوالت کے پیش نظر اسے قلم انداز کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں بکنے والے نسخوں میں تصویروں کا استعمال کم ہے، انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف کی شکل میں موجود کتاب میں سمجھانے کے لیے تصویریں اور نقشے زیادہ تعداد میں موجود ہیں، کم تصویروں کے ساتھ بھی کتاب بورنگ نہیں ہے، یہ کتاب اول تا آخر ایک نشست میں پڑھی جانے کے لائق ہے۔ آخر میں ایک ضروری تنبیہ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
ایک ضروری تنبیہ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب کافی معلومات افزا ہے لیکن جیسا کہ مضمون سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ایک مسلمان کے ایمان اور عقیدہ پر چوٹ مارنے کا بھی اس میں مکمل انتظام ہے۔ اس لیے اس کتاب کے مطالعے سے پہلے روح و جسم کی بحث سے آگہی ضروری ہے، روح اور غیر مادی عقل کے ثبوت میں پیش کیے جانے والے مضبوط دلائل سے واقفیت بھی ہو نیز اسلام نے اس سلسلے میں کیا رہنمائی کی ہے اس کی معلومات بھی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں سائنس کے پردے میں الحاد اور مادہ پرستی کو کیسے فروغ دیا جاتا ہے اور اس سے اپنے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کا کیا طریقہ ہے اسکے متعلق بھی بنیادی معلومات کا علم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے حمزہ زورٹزس صاحب کی کتاب “دی ڈیوائن ریلٹی” The Divine Realityکا مطالعہ مفید رہے گا، اسکا مختصر تعارف بھی قارام پر شائع ہو چکا ہے، اردو میں مولانا اشرف علی تھانوی رح کی کتاب ” اسلام اور عقلیات” رہزنوں سے حفاظت کے لیے بہت اہم ہے۔ دماغ کی خالص مادہ پرستانہ توجیہ کی تردید کے لیے فلپ کوف کی “گلیلیوز ایرر”Galileo’s Error کا مطالعہ ضرور کیا جائے۔
Add Comment