وصی میاں خان رازی
کسی نے یہ سوال کیا کہ اگر خدا نے موت کا ایک وقت طے کر رکھا ہے، اور اسی وقت موت آنی ہے تو پھر کیا انسان کے خودکشی کرنے پر مرنا، یا قاتل کا قتل کرنا اس طے شدہ امر خداوندی کے خلاف نہیں ہے؟ اسی مسئلہ کے جواب میں یہ چند سطور لکھی گئی ہیں۔
یہ مسئلہ تقدیر سے جڑا ہے، اور تقدیر ایک امر خداوندی ہے، اس نے ہر چیز کو ایک اندازے کے ساتھ طے کرکے دنیا میں برپا کیا ہے، لیکن مسئلہ تقدیر اور اس کی اہمیت سے پہلے خدا کے بارے میں سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام میں تصور خدا آخر ہے کیا، کیونکہ اس کے بغیر چیزوں کو اصولی طور پر سمجھنا دشوار ہو جاتا ہے، اور ہم اپنے ماحول، تعلیم اور خاص ذہنیت اور شخصیات کے اثر میں اسے انسانی معیارات پر پرکھ کر سمجھنا چاہتے ہیں جس میں ظاہر ہے کہ نتیجہ کے اعتبار سے کنفیوژن اور پھر مایوسی ہی ہوتی ہے۔
نوٹ: مسئلہ خیر کو تفصیل سے سمجھنے کے لئے قارام پر شائع اس مضمون پر جا سکتے ہیں مسئلہ خیر وشر
1) خدا وہ سپر نیچرل ہستی ہے جو ہر شیئ کا مکمل علم رکھتی ہے، ہر شئی پر اسے مکمل قدرت اور اختیار حاصل ہے، وہ اپنے کاموں کے لئے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے جبکہ ہر ایک اس کے سامنے جواب دہ ہے، یہ قرآن کے اعتبار سے ایک مسلم کا یہی عقیدہ ہونا ضروری ہے۔
2) خدا نے انسان سمیت ہر مخلوق کو اپنے ایک مخصوص انداز مخصوص صلاحیتوں اور مخصوص عمل کے لئے بنایا ہے اور ہر شیئ کی ایک نپی تلی مقدار اس کے اندر رکھ دی ہے جو اسباب ومسببات کی شکل میں اس کی زندگی میں رونما ہوتی ہے، جس سے فرار ممکن نہیں ہے۔اس عمل کو تقدیر کہتے ہیں۔
3) لیکن اس تقدیر کے ساتھ ساتھ اس نے انسانوں کو free willاور آزادی اختیار بھی عطا کرکے اس کے لئے رسولوں اور نبیوں کے ذریعے اپنی کتابوں میں خیر وشر کے اصول واضح کرکے بیان رکھ دیے ہیں، جن میں خیر پر اجر اور شر پر سزا کا اعلان ہے۔
4) دنیا کے اندر انسان اس free will سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خدا کی اطاعت بھی کرتا ہے اور کبھی کبھی اس اطاعت میں اس درجہ بڑھ جاتا ہے کہ رشک ملائکہ بن جاتا ہے، کہ اس پر فرشتوں کی معصومیت کا گمان ہونے لگتا ہے، اسی طرح بہت سے انسان اس free will کے نتیجے میں اس کی نافرمانی میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ شیطان شرما جائے، جبکہ ان دونوں انتہاؤں کے مابین ایک بڑی تعداد کے درمیان خیر وشر کے رد وقبول کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس میں کہیں خیر کا پہلو غالب رہتا ہے کہیں شر کا۔
5) اگر انسان کو Free will نہ عطا کی جائے تو پھر اس کو مکلف بنانے اور اچھائی پر انعام اور برائی پر سزا کا کوئی عقلی و منطقی مطلب نہیں بنتا، ظاہر ہے انسان اس آزادانہ اختیار کے نتیجے میں بہت سے ایسے اچھے کام کرے گا جو بحر وبر میں صلاح اور خیر کی اشاعت کا سبب بنیں گے، اسی طرح یہ بھی free will کا لازمی نتیجہ ہے کہ بہت سے انسان اس اختیار کا استعمال برائی اور شر کے پھیلاؤ میں کریں گے کہ زمین وآسمان اس کے نتیجہ میں فساد سے بھر جائیں۔ جہاں خیر کے پھیلاؤ سے ایک مخلوق مستفید ہوتی ہے اور بہت سے بگڑے سنورتے ہیں وہیں شر کے پھیلاؤ سے بہت سے بگڑتے ہیں اور ایک مخلوق اس کے نتائج بد بھگت کر پریشان ہوتی ہے۔
6)لہذا اس کا سیدھا سا نتیجہ جہاں یہ ہے کہ کرم، عفو، جانثاری،شفقت، محبت، ایثار، درگزر، رحم، عدل، سخاوت، شجاعت، امانت و دیانت جیسی صفات سے بہت سو کا فقر دور ہوتا ہے،بہت سے مردہ جسموں میں جان دوڑ جاتی ہے، بہت سے شکستہ دل نئی روح اور نئی تازگی کا احساس کرنے لگتے ہیں، بہت سے موت کے منہ سے واپس آکر زندگی کی رنگینیوں کا لطف لینے لگتے ہیں، نفس عمارہ، نفس مطمئنہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جسموں کے ساتھ روحوں دماغوں اور لاشعور کے نہاخانوں میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے، حمزہ( رضی اللہ عنہ) کے قاتل جھوٹے مدعی نبوت ( مسیلمہ) کا سر اتارنے والے بنتے ہیں، ابو الشر ابوجہل کے گھر میں یرموک میں اسلام کے لئے تڑپتا عکرمہ( رضی اللہ عنہ) پیدا ہوتا ہے، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت کے لئے تلوار لیکر نکلے عمر ( رضی اللہ عنہ) نبی کے وزیروں اور اسلام کے عظیم خلیفاؤں میں شمار ہوکر دنیا میں جنت کی بشارت پاتے ہیں، چور اور ڈاکو عظیم صوفیا اور مصلح بن کر ایک جہاں کو فضیل بن عیاض جیسوں کی شکل میں روشن کرتے ہیں، کفر کے لیے اٹھتی تلوار اسلام کے آغوش میں آکر سیف اللہ ( خالد بن ولید رضی اللہ عنہ) بن جایا کرتی ہے، حق کے دشمن تاتاری اسی کے نام لیوا بن کر اس کے محافظ بن جاتے ہیں جبکہ کسی کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، وہیں ان کے مخالف صفات کے پھیلاؤ سے دنیا میں ظلم، فساد، بربریت، حیوانیت کا اس قدر بول بالا ہو جاتا ہے کہ کوئی نیرو وم کے جلنے پر بانسری بجاتا ہے، کوئی ہٹلر، مسولینی، ماؤں، اور سٹالن اپنی سنک میں کروڈوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا لیتے ہیں تو کبھی کوئی لیوپولڈ ثانی، کوئی بش کوئی بلیئر درندوں کو بھی شرمانے والے عمل کرکے قہقہے لگاتے ہیں۔
تقدیر کے لکھے، اور ہر شئے کے مقرر ہونے کا سوال یہاں بھی ہونا چاہئے، کہ ایسا انقلاب کیسے اور کیوں برپا ہوا جبکہ ہر شیئ مقرر اور طے شدہ ہے، صرف موت اور زندگی ہی طے شدہ نہیں ہیں ان کے ما بین گزرتا ہر پل طے شدہ ہے، رزق سے لیکر علم اور جہالت تک، زبان کی حرکت سے لیکر قلم کی جنبش اور پلک کی حرکت تک سب اس علیم وقدیر کے یہاں طے ہے۔
لیکن عموماً سوال صرف شر کے پھیلاؤ اور اس کے نتائج واٹرات کو ہی لیکر ہوتا ہے جو کہ منطقی اعتبار سے صحیح نہیں، سوال اگر ہونا چاہئے تو ہر دو جگہ، کیونکہ جیسے شر کی چپیٹ میں آکر انسان بسااوقات خود کا بھی نقصان کرتا ہے کبھی ذہنی کرب اور نفسیاتی بیماریوں کی شکل میں، کبھی کسی دشمن سے انتقام یا حسد کے جذبے کے تحت خود کو اندر سے ہر لمحہ جلاکر، کبھی اپنی اہمیت کے احساس کو پرکھنے کے لئے اپنوں سے ناراض ہوکر، کبھی رب کی نافرمانی کرکے گناہوں کی تاریکیوں میں دل ودماغ کو ہیجان واضطراب میں مبتلا کرکے، یہ احساسات وجذبات بسااوقات اپنی انتہا پر پہونچ کر کبھی خود جان دینے تو کبھی دوسرے کی جان لینے پر بھی منتج ہو جاتے ہیں، اسی طرح خیر کے غلبہ کی شروعات میں اندرونی سطح پر لا شعور یا فرائد کی زبان میں تحت الشعور Unconscious۔کی سطح پر ہی ہوکر دوسروں تک متعدی ہوتی ہے، یہ ایک تدریجی سلسلہ ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے کئی اسباب وآثار کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے، اور دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو اسباب کا سلسلہ رکھا ہے اس کے تحت اس کی تقدیر کی جلونمائیاں اس طرح ظاہر ہوتی ہیں کہ ایک ساتھ تقدیر، انسانی اختیار، اسباب ومسببات سب اعمال اور ان کے نتائج کے ظہور میں مربوط نظر آتے ہیں کہ آپ کسی کی نفی نہیں کر سکتے، الا یہ کہ آپ کی نظر ہر ایک کو الگ الگ کرکے منظر کا جائزہ لینا چاہتی ہو، تب الجھن ہو جاتی ہے، ورنہ سیدھا صاف نظر آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہر شئی کی مقدار متعین کرکے خیر وشر کا اختیار free willکی شکل میں انسان کو عطا کرکے دنیا یعنی دارالاسباب میں اس کو بھیج دیا، تو اس خیر وشر کے نتائج بھی تقدیر کے مطابق اسباب ومسببات کی شکل میں لازما ظہور میں آئیں گے، تقدیر کے خلاف کچھ نہیں ہوگا، نہ ہی اختیار کے خلاف ہوگا اور نہ ہی اسباب ومسببات کی چین ٹوٹے گی۔
لہذا شرک، خود کشی، قتل، فساد، ظلم اسی طرح تقدیر اور انسانی اختیار کا فطری منطقی نتیجہ ہے جیسے ایمان، عدل، کرم، سخاوت، ایثار، صلاح وخیر بھی اسی کے انجام میں سے ہیں، دونوں قسم کے مادے انسان کے آزادنہ اختیار کے لئے ضروری ہیں ورنہ ثواب وعقاب کا نظام بے معنی ہوگا، اور ان مادوں کے اثرات لازما ایک جہاں کو متاثر کریں گے یہ بھی ضروری ہی ہے۔
Add Comment