ترجمہ: محمد اللہ قیصر
بچوں کی تربیت اور اس سے متعلق معاملات سے نبٹنے کے سلسلے میں والدین ان چار مختلف رویوں میں کوئی ایک اختیار کرتے ہیں:
1) آمرانہ رویہ: اس رویہ کو اختیار کرنے والے والدین بچوں سے اونچے توقعات رکھتے ہیں، اور بڑے بلند معیاروں پر انہیں پرکھتے ہیں، وہ بچوں کی ضروریات اور ان کے احساسات کے تئیں بہت زیادہ حساس یا ہمدرد نہیں ہوتے، مسلسل اور بہت جلد تادیبی کاروائی کرتے ہیں، اصول و ضوابط بہت سارے تو لادتے ہی ہیں، ان کے نفاذ میں بھی سختی برتتے ہیں، بچوں کو کسی وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، بچوں سے ہمیشہ یہی توقع ہوتی ہے کہ چوں چرا کئے بغیر والدین کی پیروی کریں۔
(2) تحکمانہ مزاج: اس قسم کے رویہ کے حامل والدین کی توقعات بھی بچوں سے خوب ہوتی ہیں، معیار ان کے بھی بہت بلند ہوتے ہیں، لیکن یہ والدین بچوں کی ضروریات، اور ان کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہیں، اصول و ضوابط متعدد تو ہوتے ہیں، اور ان کا نفاذ بھی ہوتا ہے، لیکن بچوں کو ان کی وضاحت بھی دی جاتی ہے، سزائیں مبنی بر انصاف ہوتی ہیں، اور ان میں ایک تناسب ہوتا ہے، فطری نتائج پر ہو ہلا نہیں ہوتا ان کے ظہور پر روک نہیں ہوتی، بچوں سے توقع ہوتی ہے کہ والدین کی پیروی کریں، تاہم بچوں کے سوالات اور ان کے خدشات پر بھی والدین توجہ دیتے ہیں۔
(3) کشادہ مزاج: اس قسم کے رویہ کو اختیار کرنے والے والدین کی توقعات بچوں سے بہت کم، بلکہ یوں کہئے نہ کے برابر ہوتی ہیں، اور ان کا ایسا کچھ خاص معیار بھی نہیں ہوتا، ہاں یہ بچوں کے احساسات کے تئیں بہت زیادہ حساس اور حد سے زیادہ ہمدرد ہوتے ہیں، اصول و ضوابط کا نفاذ معدوم ہوتا ہے، سزائیں یا سرزنش شاذ ونادر ہی ہوتی ہیں۔ والدین بچوں کی پیروی کرتے ہیں، بچوں کی خواہشات حد سے زیادہ پوری کی جاتی ہیں۔
(4) ناوابستہ: اس قسم کے والدین بھی بچوں سے توقعات بہت کم نہ کے برابر ہی رکھتے ہیں،یہ بچوں ضروریات اور ان کے احساسات کے تئیں حساس اور ہمدرد بھی نہیں ہوتے، عموما بے فکر سے رہتے ہیں، اور بچے کی نشو و نما والدین کی نہ کے برابر رہنمائی اور تعاون کے پس منظر میں بجلی بری خود بخود ہوتی رہتی ہے۔
مزید اختصار کے ساتھ کہا جاتے تو، آمرانہ مزاج کے حامل والدین ، درشت، جذبات سے عاری، اور سخت ڈیمانڈنگ لیکن بے حس ہوتے ہیں۔
فراخ دلانہ مزاج رکھنے والے، مہربان، ناز بردار، لاڈ پیار کرنے والے ہوتے ہیں، بہت زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں، لیکن ڈیمانڈنگ نہیں ہوتے۔
لاتعلق رہنے والے والدین، بے توجہ، فاصلہ بناکر رکھنے والے، اور بے فکر ہوتے ہیں، نہ حساس ہوتے نہ ان میں ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے، صرف تحکمانہ مزاج رکھنے والے والدین بچوں کی صحت مند اور خوشگوار نشو ونما کے خواہشمند ہوتے ہیں، اسلئے کہ یہ تمام والدین ڈیمانڈنگ اور حساس دونوں ہوتے ہیں، وہ سخت تو ہوتے ہیں لیکن انصاف پسند بھی ہوتے ہیں ، اپنے بچوں کیلئے وہ ایک معیار طے تو کرتے ہیں لیکن انہیں یہ تربیت بھی دیتے ہیں کہ ان معیارات تک کیسے پہونچنا ہے۔
یہاں دو چیزوں میں خاطر خواہ توازن کی ضرورت ہے، والدین کے ڈیمانڈنگ اور ذمہ داری کے تئیں حساس ہونے میں۔
بچوں کی ضروریات اور ان کے احساسات کے تئیں ناکافی ہمدردی ، اور عدم احساس کے ساتھ ان سے ڈھیر سارے مطالبات کا نتیجہ درشتگی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اور بسا اوقات تعلقات میں کھردرے پن کا سبب بنتا ہے۔
بچوں کے احساسات اور ان کے مزاج کے تئیں زیادہ حساس ہونے کے باوجود ان سے مطالبات نہ کرنا بچوں میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے، والدین بچوں سے کیا چاہتے ہیں اور انہیں کیا دیتے ہیں اس میں توازن کی سطح تک پہونچنا پیچیدہ مرحلہ ہے۔
یقینا، یہ چاروں طریقے کوئی “بند ڈبے” نہیں ہیں، جنہیں کسی پتھر میں سیٹ کردیا گیا ہو، یہ تو بس عام طریقے ہیں، جو والدین کے اختیار کردہ انداز تربیت کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتے ہیں،
. آئیے اس کی صحیح صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں
سماج میں رائج بچوں کی تربیت کے مختلف طریقوں پر تہذیب کا بڑا اثر ہوتا ہے، حتی کہ ہر لفظ کے مفہوم کی وضاحت کیلئے جو طریقے اختیار کرتے ہیں، ان پر بھی یہ اثرانداز ہوتا ہے، امریکی یا مغربی آزاد خیال کلچر میں جو چیز “ذہنی کشادگی” سمجھی جاتی ہے، وہ دنیا کے غیر آزاد خیال کلچر میں رائج “ذہنی کشادگی” سے بہت مختلف ہوگی، “آمرانہ انداز” کے تئیں ایک تہذیب کا تصور دوسرے کے یہاں رائج “تحکمانہ انداز” کے مرادف ہو سکتا ہے
اس طرح کی پریشان کن صورت حال ان مسلم بچوں کے ساتھ نظر آتی ہے جو ایک غیر مسلم مغربی ملک میں آتے ہیں، تربیت کا ایک انداز جو تیونس میں عمومی اور مستند سمجھا جاتا ہے، وہی کینیڈا میں منتقل ہو کر بے لچک “آمرانہ انداز” محسوس ہونے لگتا ہے، اگر والدین اسے حکمت اور غور و فکر کے ساتھ سنبھالتے ہیں تو ٹھیک، نہیں تو جدید و قدیم تہذیب کا تصادم والدین اور بچوں کے درمیان دراڑ پیدا کر سکتا ہے۔
زیادہ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ والدین کی اقسام بھی مختلف ہو سکتی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے انداز تربیت میں ہم تبدیلی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
ایسا ہوتا ہے کہ والدین تربیت کا آغاز تحکمانہ مزاج کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب عمر ان کے جسم، قوت، ذہنی اور جذباتی ذخیرہ سے خراج لینے لگتی ہے تو وہی آزاد خیال والدین بن جاتے ہیں۔
دوسری مثال ان خاندانوں کی ہے جن میں بچوں کے درمیان بڑا فاصلہ ہوتا ہے، ہو سکتا ہے کہ بڑے بچوں کی تربیت کے وقت والدین کا مزاج، معاف نہ کرنے والا اور آمرانہ ہو جو بعد میں نرم پڑ گئے ہوں، لیکن جو لوگ چھوٹے بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ خوش مزاج بن کر تلافی مافات کی زیادہ کوشش کرتے ہیں، وہ آزاد خیال والدین ہوتے ہیں۔بالکل اسی طرح کے والدین جنہوں نے بچوں کو بڑا ذمہ دار اور نظم و ضبط کا انتہائی پابند بنایا ہو وہیں ان کے دوسرے بچے انتہائی بدتمیز، غیر ذمہ دار جواب دہی کے احساس سے عاری ہوتے ہیں۔
ایک دوسرا سبب جو باعث نقصان ہوسکتا ہے، وہ ہے ذہنی دباؤ اور دماغی صحت۔ ممکن ہے والدین شروع میں جوان اور طاقت سے بھرپور ہوں، اور ابتداء بچوں پر مناسب درجہ میں اپنے اختیارات نافذ کرنے کی کوشش کریں، لیکن بعد میں ذہنی پریشانی، کام، یا مکمل تباہ کردینے والی مالی مشکلات کے سبب لاپرواہ والدین بن جائیں۔ اگر والدین دوسرے مشاکل سے نبٹنے کیلئے تربیت کی ذمہ داری سے مکمل طور پر دست بردار ہوچکے ہوں تو بڑے بچوں پر اپنے چھوٹے بھائی بہن کی تربیت کا بوجھ آسکتا ہے
ان میں سے کوئی سادہ سہل نہیں ہے
بچوں کی تربیت واحد اہم ذمہ داری ہے جو والدین پورا کرتے ہیں، یہ استثنائی طور پر چیلنجنگ اور محنت طلب کام ہے۔
بڑے بچے جو خود والدین بن چکے ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچپن پر غور کریں، اور والدین نے ان کی تربیت کے لئے جو طریقے اختیار کئے تھے ان کی اہمیت کا اندازہ لگائیں، ہو سکتا ہے آپ کو لگے گا کہ اپنی شخصیت میں والدین کے قدیم انداز تربیت کی غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ کے والدین نے آپ کو اچھی طرح پالا پوسا ہے، تب تو ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے طریقوں کو دہرائیں، اور اسی طرح کے نتیجہ کی امید بھی ہے۔
زندگی کے دوسرے کاموں کی طرح بچوں کی تربیت میں بھی سب سے پہلے توکل کی شدید ضرورت ہے، پھر اللہ کی مشیت سے مقصد کے حصول کیلئے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں اسے کرنے کیلئے جہد مسلسل اور محنت مطلوب ہے۔
Add Comment