Home » کتابوں پر تبصرے » لائبریری میں دو تازہ کتابوں پر نظر: محمد عمیر
آج کا تجربہ کتابوں پر تبصرے

لائبریری میں دو تازہ کتابوں پر نظر: محمد عمیر

 

 There   is  a  God: Antony  Flew

یہ کتاب کافی دنوں سے فہرست آرزو‌ میں تھی، اسکی قیمت جہاں تک مجھے یاد پڑتی ہے نو سو کے قریب تھی، اب اچانک نظر پڑی تو یہ چھ سو میں مل رہی تھی سو میں نے جھٹ پٹ خرید لی۔

کتاب کے سر ورق پر قابل غور ہے کتاب کے نام کو لکھنے کا طریقہ، “نو” کو باقاعدہ قطع کر کے مصنف اپنے باطل نظریے سے رجوع کا اعلان کرتا ہے۔

دراصل کتاب کا مصنف انٹونی فلیو ایک جارح قسم کا ملحد تھا، اس نے پچاسیوں معیاری مقالہ جات اور کتابیں فلسفہ الحاد پر لکھی ہیں، اس نے نہ صرف ان میں مذہب کا ابطال کیا ہے بلکہ الحاد کو بھی ایک منظم شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ برٹرنڈ رسل جیسے ملحد سے بھی کئی قدم آگے نکل گیا تھا چونکہ رسل نے محض مسئلہ شر کو بنیاد بنا کر اور مذہب کی چند چیزوں کو سامنے رکھ کر خدا کا انکار کیا تھا۔

انٹونی فلیو نے اس کتاب میں فلسفیانہ انداز میں مذہب، خدا کے وجود، مسئلہ خیر و شر، سائنس،‌شعور،‌ مصنوعی شعور جیسے موضوعات پر فاضلانہ بحث کی ہے۔

اس نے ثابت کیا ہے کہ خدا کا وجود اس کائنات کی اصل ہے، اسکا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مصنف کے پس منظر اور کتاب کی فہرست کو‌دیکھ کر لگتا ہے کہ کتاب واقعی دلچسپ ہوگی بس ایک خدشہ اس بات کا ہے کہ چونکہ مصنف نے اپنے آبائی مذہب یعنی عیسائیت کی طرف رجوع کیا ہے اس لیے اس میں ذبردستی عیسائیت کے حق ہونے کے دلائل فراہم کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہوگی جو بعض دفعہ انتہائی غیر معقول ہوتی ہے۔

 

 Moonwalking  with  Einstein: Joshua Foer

کتاب کا عنوان دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ آئینسٹائن کی سائنسی خدمات کے متعلق یا اسکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والی ہوگی‌۔

دراصل واقعہ اس کے الٹ ہے، یہ کتاب نہ تو آئینسٹائن کے حالات پر ہے نہ اسکی سائینسی خدمات پر، یہ نام ہے مصنف کی ایک تکنیک کا جسے اس نے اپنے حافظے کی مضبوطی کے لیے وضع کیا تھا۔

“مونواکنگ” رقص کی ایک قسم ہوتی ہے، مصنف کا کہنا ہے کہ اگر عجیب و غریب تخیلات کے پردے میں اپنی یادداشت کو لپیٹ دیا جائے تو اسکے محفوظ رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اسی طرح اسنے آئینسٹائن کو رقص کرتے ہوئے تصور کیا اور اس سے چند چیزیں وابستہ کر دی جنہیں وہ یاد رکھنا چاہتا تھا۔

مزید یہ کہ مصنف بھی آئینسٹائن کی طرح مذہبا یہودی ہے اس مناسبت سے بھی اسکا طبعی رجحان اس طرف ہوگا۔ اپنی قوت حافظہ پر کام کرنے کا خیال بھی اسے تبھی آیا جب اس نے ایک میوزیم میں ایک یہودی کا فوٹو دیکھا جس کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ یہ طاقتور ترین شخص ہے، اس یہودی شخص نے یہ انعام 1920 میں حاصل کیا تھا، یہ دیکھ کر مصنف نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا یہ طاقتور ترین شخص اپنے زمانے کے ذہین ترین شخص یعنی آئینسٹائن سے ملا ہے یا نہیں، مائنڈ اور مسل ( عقل اور عصب) کی ملاقات کی تصویریں اس کے چشم تصور میں رقص کرنے لگی۔ اس نے مزید تحقیق کی تو معلوم چلا کہ ذہین ترین اشخاص کئی خانوں مین منقسم ہیں، کسی کو اسکی سائنسی خدمات کے باعث ذہین ترین کہا‌ گیا ہے تو کسی کو آئی قیو ٹیسٹ میں زیادہ نمبرات حاصل کرنے کی بنیاد پر، کہیں اسکا پیمانہ مشکل ترین کیلکولیشن کو بنا کیلکولیٹر کی مدد سے چٹکیوں میں محض ذہن میں حل کر دینے کو قرار دیا گیا ہے تو کہیں بے ترتیب ہندسات کو شعراء کے کلام کو ایک نظر میں دیکھ کر یاد کر لینے کو۔

اسی اثنا میں اسے اپنے صحافتی کام کے سلسلے میں ایک مقابلہ حفظ کے پروگرام میں شرکت کی، وہاں انکی ملاقات بہت سے حفظ کے شہسواروں سے ہوئی، ان تمام نے یہی کہا کہ ہمارے پاس کوئی خاص خداداد صلاحیت نہیں ہے، ہم نے بس اپنے قوت حافظہ پر محنت کی ہے، جس طرح پہلوان اپنے جسم پر محنت کر کے اپنے جسم مضبوط کرتے ہیں اسی طرح ہم نے اپنے حافظے پر محنت کر کے اسے مضبوط کیا ہے۔

ایک سال تک مصنف نے بھی اپنے حافظے پر محنت کی اور اگلے سال ہی اس نے وہ کمپٹیشن جیت لیا جس کو کور کرنے وہ ایک سال پہلے آیا تھا۔

مصنف کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے حافظے پر محنت کرنی چھوڑ دی ہے، ہم اکثر چیزوں کو اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ ہمارے تحت الشعور میں یہ بیٹھ گیا ہے کہ اس کے بھول جانے سے ہمیں کوئی خاطر خواہ نقصان نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے پاس سمارٹ فونز اور کتابیں موجود ہیں۔

مصنف نے کتاب میں قوت حافظہ کو بڑھانے کی تکنیک پر بات کی ہے جسے اصطلاح میں نمونکس (mnemonics) کہتے ہیں، مزید اس نے انسانی حافظے اور زمانے کے ساتھ اس میں تغیر پیدا ہونے کے سلسلے میں لکھا ہے، زمانہ قدیم میں یادداشت اور حافظے کی حیثیت کیا تھی اور اسکو بڑھانے کی کیا تکنیک استعمال ہوتی تھی اس پر بھی اس نے روشنی ڈالی ہے۔

مصنف نے حافظے اور یادداشت پر زور اس لیے بھی دیا ہے کیونکہ اس کے نزدیک جن تجربات کی بنیاد پر حکمت و بصیرت و اعلیٰ نظریات کی عمارت تعمیر ہوتی ہے وہ تجربات دراصل انسانی حافظے اور یادداشت کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔

قیمت: 410

Add Comment

Click here to post a comment

Facebook Page

SuperWebTricks Loading...