Home » آج کا تجربہ » سوفی کی دنیا (The Sophie’s world) از یوسٹائن گارڈر
آج کا تجربہ

سوفی کی دنیا (The Sophie’s world) از یوسٹائن گارڈر

ابو  المنطوي

یہ کتاب مصنف نے اپنی مادری زبان نارویجین میں1991 ء میں لکھی تھی، کتاب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسکا 1994 ء میں انگریزی میں ترجمہ ہوا اور پھر کتاب کی شہرت نے کچھ ایسی رفتار پکڑی کہ اسکا اب تک دنیا کی ساٹھ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اسکی چار کروڑ کاپیاں فروخت کی جا چکی ہیں۔

اردو میں اسکا سب سے بہترین ترجمہ پاکستان کے نامور ادیب و مترجم شاہد حمید صاحب نے کیا ہے جو اس سے پہلے بھی دیگر شہرۂ آفاق کتابوں کے ترجمے کر چکے ہیں، یہ ترجمہ سوفی کی دنیا کے نام سے شائع ہوا ہے۔

میں نے یہ کتاب انگریزی میں فلپکارٹ سے منگوائی ہے، اسکے انگریزی مترجم پولیٹ مولر ہیں، کتاب کی زبان آسان، سلیس اور پر کشش ہے، کتاب میں تقریباً ساڑھے چار سو صفحات ہیں، اسکی قیمت ڈاک خرچ سمیت کل 424 روپیے پڑی۔

اپنے مشمولات کے اعتبار سے تو یہ برٹرینڈ رسیل کی ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی ( تاریخ فلسفہ مغرب) کی طرح ہے لیکن اسکو عام فہم بنانے کے لیے جامہ ایک ناول کا پہنایا گیا ہے جس میں سوفی اور اسکے فلسفی استاد کے مصنوعی کردار کے ذریعے تاریخ فلسفہ کو ایک دلچسپ کہانی کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

فلسفیانہ سوالات سے باقاعدہ سوفی کا واسطہ ایک نا معلوم شخص کے خطوط سے پڑتا ہے، اس سے قبل وہ ایک عام سی لڑکی ہے جو بعض فلسفیانہ مضامین پر غیر شعوری طور پر اپنے دوستوں سے باتیں کر لیتی ہے مثلاً یہ کہ آیا انسانی دماغ ایک سوپر کمپیوٹر کی ترقی یافتہ شکل ہے یا اسکی کوئی مستقل و ممتاز حیثیت ہے۔

اول اول جو دو خطوط اسے گھر کے ڈاک خانے میں موصول ہوتے ہیں وہ فلسفے کے انتہائی گہرے سوال ہیں، ” تم کون ہو؟” اور “اس کائنات کی اصل کیا ہے؟” ۔ یہ دو سوالات نہیں بلکہ فلسفے کے دو اتھاہ سمندر ہیں جس کے گہرے پانی سے موتی چند با بصیرت لوگ ہی نکال کے لا پائے۔ جب‌ ان سوالات سے سوفی کا واسطہ پڑا تو اسکی حالت ایک ایسے نوسکھیے کی ہو گئی جسے اس کے استاد نے تیراکی میں ماہر بنائے بغیر ہی اچانک گہرے پانی میں دھکیل دیا ہو، اب وہ بدحواسی میں ہاتھ پاؤں مارتا ہے، چیختا ہے چلاتا ہے لیکن کوئی راستہ اسے سجھائی نہیں دیتا۔ ان سوالات پر گہرائی سے غور و فکر کرنے پر سوفی کی حرکات و سکنات و کیفیات کا نقشہ جو مصنف نے کھینچا ہے وہ اسی طرح کا ہے، وہ سوال کرتی ہے کہ کیا میں سوفی ہوں؟ نہیں، یہ تو میرا نام رکھا گیا ہے، میرا نام تو کچھ بھی رکھا جا سکتا تھا، یہ تو میری شناخت نہیں، وہ آئنے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور پوچھتی ہے میں کون ہوں،‌ اپنے عکس سے کہتی ہے میں تو ہے، یا تو میں ہے ؟

من تو شدم تو من شدی

خود کتاب کے سرورق پر جو سوفی کی سر دھنتی ہوئی تصویر ہے وہ اسی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اسکے ذریعے سے مصنف شروع میں ہی یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ فلسفے کے عمیق دریا میں اگر بچے کو شروعات میں اتار دیا جائے تو وہ اسکے لیے زیادہ بہتر ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ بچے کو چلنے سے پہلے اگر تیراکی سکھا دی جائے تو وہ بڑی عمر میں گہرے دریا سے واسطہ پڑنے پر پریشان نہیں ہوگا۔ چونکہ بچہ رحم مادر میں امنیوٹک فلیوڈ ( سیال رچم مادری) میں تیر رہا ہوتا ہے اسلیے ولادت کے بعد چھ مہینے تک اس میں فطرتاً تیرنے کا مادہ موجود ہوتا ہے جسے پریمٹو سویمنگ ریفلیکس کہا جاتا ہے، اسی لیے آجکل تیراکئ اطفال پر کافی زور دیا جا رہا ہے۔

مصنف کا خیال ہے کہ ہر بچہ اپنے عمر کے بالکل ابتدائی دور میں ایک فلسفی ہوتا ہے، کیونکہ فلسفی کو عام‌ لوگوں سے دو باتیں ممتاز کرتی ہیں،‌ ایک اسکی حس تعجب و تحیر اور دوسرا اسکا ہر بات پر سوال کرنا اور یہ دونوں وصف ہی چھوٹے بچوں میں فطرتاً موجود ہوتے ہیں۔ رحم مادر سے ایک نئی دنیا میں آنا اسکے لیے ایک عجیب سانحہ ہوتا ہے، وہ ہر چیز سے حیران ہوتا ہے، فرط تعجب میں اسے ٹکٹکی لگا کر دیکھتا ہے، ہاتھوں پیروں سے محسوس کرتا ہے، منہ میں ڈال کر اسکی تشخیص کرنا چاہتا ہے، جب گویائی حاصل ہوتی ہے تو اندھا دھند سوالات کی بارش شروع کر دیتا ہے لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اور اسکے حیرت و استعجاب کی ناقدری و اسکے سوالات کی اندیکھی کے سبب وہ بھی عالم کون و مکان کی حیرت انگیز جلوہ گری کا عادی ہو جاتا ہے اور اسے نظرانداز کرنا شروع کر دیتا ہے۔

مصنف کا یہ ناول دراصل خود اسکے اپنے پس منظر کا نتیجہ ہے۔ خود مصنف بھی چار پانچ سال کی عمر میں خوب سوالات کیا کرتا تھا، پھر دس بارہ سال تک اس نے بھی بے اعتنائی اور لاپرواہی کی زندگی گزاری لیکن پھر سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اس کے اندر بچپن کا تجسس عود کر آیا جس کے نتیجے میں وہ فلسفے کے میدان میں اتر گیا۔
چھوٹے بچوں کو سوالات پر دتکارا نہ جائے اس ضرورت کے مد نظر اس نے یہ ناول تصنیف کیا۔

اس کتاب کو اصلا بچوں (ٹینیجرز) کے لیے لکھا گیا تھا لیکن یہ کتاب ہر عمر کے لوگوں میں برابر مقبول ہوئی۔ کتاب کے مرکزی کردار سوفی ایمنڈسن کی عمر چودہ سال بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

کتاب کے سرورق پر ایک اور بات جو غور کرنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ سرورق کو خرگوش کی کھال کی طرح سفید روئیں دار رکھا گیا ہے، اوپر ایک آدمی مائک تھامے کھڑا ہے جو دراصل جادوگر ہے، جادوگر منجملہ دوسرے کرتبوں کے ایک کرتب اپنی ٹوپی میں سے خرگوش نکالنے کا دکھاتا ہے، دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ خرگوش عدم سے برآمد کیا گیا ہے، تماشائی صرف سامنے بیٹھے انسان نہیں ہوتے بلکہ خرگوش کے روؤں میں پنہاں چھوٹے چھوٹے جراثیم بھی ہوتے ہیں، تو گویا یہ دنیا خرگوش کی طرح عدم سے یا ٹوپے کی طرح کے کسی خول سے وجود میں آتی ہے، اب خرگوش کے جسم پر موجود جراثیم دو قسم کے ہیں ایک تو وہ جو بالکل روؤں کی نوک پر بیٹھ کر جادوگر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر جادوگر کے کرتب کی کنہ کو سمجھنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو روؤں کے اندر اتر کر اسکی گرماہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسکی نرم و نازک سطح پر آرام کرتے ہیں۔ پہلی قسم سے فلسفی انسان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو بے اعتنائی اور لاپرواہی کی زندگی گزار دیتے ہیں۔ تصویر میں سوفی بھی اسی طرح جہاں ایک طرف فلسفی کی طرح چوکنی بیٹھی ہے وہیں دوسری طرف ایک لاپرواہ انسان کی طرح آرام کر رہی ہے۔

چونکہ کتاب ایک ناول کی شکل میں لکھی گئی ہے اس لیے اس میں قاری کو باندھ کر رکھنے کے سامان موجود ہیں، مثلاً یہ کہ خط لکھنے والا کون ہے اور وہ سوفی کو خط کیوں لکھ رہا ہے، کیا یہ واقعی عالم واقع میں ہو رہا ہے یا سوفی کوئی خواب دیکھ رہی ہے یا سوفی اور اسکا فلسفی معلم کسی اور کے خواب و خیال کا حصہ ہیں یا کچھ اور۔ قاری جہاں ایک طرف مسلسل فلسفے کے مسائل آشنائی حاصل کرتا ہے وہیں دوسری طرف سوفی کی پر اسرار کہانی سے بھی متحیر رہتا ہے اور ایک تجسس مستقل ہچکولے لیتا رہتا ہے۔

کتاب کے مطالعے سے قارئین کو مغرب کے ابتدائی فلسفیوں مثلاً طالیس، دیموقراطیس، سقراط، افلاطون، ارسطو سے لے کر جدید فلاسفہ مثلاً کانٹ، ہیگل، ہیوم، برکلے، مارکس، فرائڈ و غیرہم کے فلسفوں سے شناسائی حاصل ہو جائے گی۔ جو لوگ فلسفہ پڑھنا چاہتے ہیں لیکن اسکے خشک مضامین سے طبیعت اکتاتی ہے اور وہ شروعات بھی نہیں کر پاتے ان کے لیے یہ کتاب مفید رہے گی۔

قارئین اس ناول میں اسلامی یا ہندوستانی و چینی فلسفہ نہ تلاشیں، اس میں صرف مغربی فلسفے سے تعرض کیا گیا ہے، یہ مشرق و مغرب کی قدیم رقابت ہے جس میں مغربی مصنفین اکثر مشرقی روایات کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے خاص طور پر مسلمانوں کی خدمات کو، باوجود یہ کہ وہ اس کثرت سے ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند شخص اس سے صرف نظر نہیں کر سکتا، بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔

فلسفہ و تصوف کے دقیق مسائل کو ناول کے انداز میں تصنیف کرنے کی روایت کی تو ابتدا بھی ایک طرح سے کہی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں نے ہی کی ہے۔ مثلاً بارہویں صدی عیسوی کے ابن طفیل کی مشہور تصنیف حی ابن یقظان جس میں ناول کا مرکزی کردار حی ابن یقظان ایک جزیرہ پر علیحدگی کی زندگی گزارتا ہے، وہیں اپنی ذات و کائنات و خالق کائنات پر غور فکر کرتا ہے اور کوئی تیس چالیس سال بعد اسکا انسانوں سے اور تمدن و ثقافت سے واسطہ پڑتا ہے۔

سوفی کی عمر چودہ سال دیکھ کر جو کتاب سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ جواہر لال نہرو کی تاریخ عالم کی جھلکیاں ( Glimpses of world History) ہے، یہ بھی چودہ سالہ اندرا گاندھی کو جیل سے لکھے گئے دو سو کے قریب خطوط کا مجموعہ ہے۔ اس میں نہرو نے تقریباً گیارہ سو صفحات میں عہد قدیم، عہد وسطی اور اپنے 1933 ء تک عہد جدید کی تاریخ ایک دلچسپ کہانی کے انداز میں رقم کی ہے۔

آخر میں ایک ضروری تنبیہ کرنا اپنے گریبان کو خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، اگرچہ یہ کتاب فلسفے اور اسکی تاریخ پر مبنی ہے لیکن چونکہ مصنف کے ذہن پر، باوجود یہ کہ وہ پیدائشی عیسائی ہے اور اخلاقیات میں عیسائی فلسفہ اخلاق پر تکیہ کرتا ہے، الحاد کا اثر ہے لہذا اس کتاب سے بھی الحاد یا کم از کم ارتیاب سے ذہن متاثر ہو سکتا ہے۔ لہذا اس کتاب یا اس جیسی کتابوں کو پڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ خود کو دلائل وجود باری تعالیٰ اور حقانیت اسلام سے لیس کر لیا جائے اس کے بعد جب خبیث و طیب کی تمیز پیدا ہو جائے تو پھر علم میں اضافے کے لیے اس قسم کی کتابوں کا مطالعہ کر لیا جائے۔
کم از کم اس کتاب سے پہلے حمزہ زورٹزس صاحب کی ڈیوائن ریلٹی، مولانا اشرف علی تھانوی رح کی اسلام اور عقلیات اور مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی مذہب اور جدید چیلنج پڑھ لی جائیں۔

Add Comment

Click here to post a comment

Facebook Page

SuperWebTricks Loading...