از: محمد اللہ قیصر
بے چینی انسان کے دل میں تبھی گھر کرتی ہے جب پریشانیوں کے مقابلہ اپنی کمزوری کا احساس ہو، لیکن اسی دوران اگر کسی طاقت ور کی پشت پناہی کا احساس ہو تو بے چینی کا گذر بھی محال ہوتا ہے، اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا غور کیجئے کہ
گھر کے ذمہ دار کا جھکاؤ اگر کسی ایک ممبر کی طرف ہو تو وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہے، اس کی زندگی میں مصائب و مشکلات کی بلا خیزی و سنگینی اور اپنی کمزوری کے احساس سے پیدا ہونے والے ذہنی اضطرابات کا احساس تک نہیں ہوتا ، اپنی ضرورتوں کے تئیں بے بالکل فکر ہوتا ہے، مستقبل کے خوف اور اضطراب نفسی سے بے نیاز، بڑوں کی شفقت و محبت کے مرغزاروں میں اٹکھیلیاں کھیلتا ہوا زندگی گذارتا ہے، وہ خود کو سب کا لاڈلا، سب کا دلارا، ان کی آنکھوں کا تارا سمجھتا ہے، اسے یقین ہوتا ہے کہ اگر اس کی زندگی میں رنج و الم کی آہٹ بھی ہوگی تو اس کے سامنے سد سکندری بننے کیلئےگھر کے ذمہ دار کے ساتھ خاندان کا ہر فرد ہر وقت موجود ہیں۔
اسی طرح اگر انسان کو احساس کو کہ کسی زور آور اور بااثر فرد کا ہاتھ اس کے سر پر ہے تو اسے دشمنوں کا خوف نہیں ہوتا، اپنے مخالف کے مقابلے ہمنوا کی قوت کا احساس انسان کو ایسی معنوی قوت فراہم کرتا ہے کہ مخالفت اور عداوت کی آندھیوں سے بھی ٹکراجانا آسان ہوجاتا ہے۔
ذرا سوچئے، انسان کے سہارے کا احساس اگر اس قدر سکون بخش ہوسکتا ہے کہ گویا اس کی دنیا میں غم کیلئے کوئی جگہ نہیں، زندگی مسروتوں سے لالہ زار ہے، ہر طرف خوشیوں کا بسیرا ہے، نعمتوں کی برسات ہے، اور رنج و تکلیف سے کوسوں دور، تو اگر اس مالک کی رحمتوں کا یقین پیدا ہوجائے، اس ذات پر توکل کی دولت ہاتھ لگ جائے جو خالق ارض و سماوات اور قادر مطلق ہے، جس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ اشیاء و حوادث کے ظہور و عدم کیلئے صرف اس کی مشیت کافی ہے اگر اس قہار و قدیر اور رحمن و رحیم کی عظمت و قدرت کے ساتھ اس کے رحم و کرم کا یقین دل میں پیوست ہو جائے تو دل کے سکون و اطمینان کا عالم کیا ہوگا، اگر ہمارے اندر یہ یقین پیدا ہوجائے کہ مصائب و آلام اور دنیا بھر کی مصیبتیں اس مالک کی قدرت کے سامنے ہیچ ہیں تو دل کی کیفیت کا کیا عالم ہوگا، ذرا غور کیجئے، زندگی کتنی خوشگوار اور پر مسرت ہوگی، بس ضرورت یہ ہے کہ مالک کی قدرت پر اور اپنے بندوں پر اس کی رحمت و عنایت کا یقین ہو، ایسا نہ ہو کہ زبان تو خالق کے رحیم و کریم ہونے کا اظہار کرے لیکن دل شکوک و شبہات سے لبریز ہو، ایک طرف یہ احساس ہو کہ وہ بندوں کے حالات کس وقت پلٹ دے کوئی نہیں جانتا اور دوسری طرف پریشان حال اور بے یار و مددگار لوگوں کی حالت دیکھ کر شبہہ پیدا ہو کہ پتہ نہیں میری تکلیف دور ہوگی یا نہیں، یہ درمیانی حالت اطمینان کے بجائے نفسی اضطراب میں اضافہ کا سبب بنتی ہے جو انسان کو اپنے عمل پرتوجہ مرکوز کرنے سے روکتی ہے، اسلئے سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ رب کریم کے کرم اور اس کی اتھاہ رحمتوں کا یقین کامل ہو،کہ جب سارے سہارے چھوٹ جاتے ہیں تو ایک سہارا ہر حال میں باقی رہتا ہے، وہ ہے رب کریم و رحیم کا سہارا، ایسی صورت میں انسان کا دل مطمئن ہوتا ہے اور اپنی ساری توانائی اپنے عمل میں صرف کرتا ہے تو اسے وہ راستے نظر آتے ہیں جہاں سے خوشی و مسرت کی دنیا میں داخلہ ممکن ہوتا ہے۔
رب کریم کی ہدایت بھی یہی ہے کہ بندوں اس کی رحمتوں سے مایوس مت ہو”لا تقنطوا من رحمة الله“
توکل کرنے والوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ توکل کرو وہ تمہارے لئے کافی ہے”ومن يتوكل على الله فهو حسبه”
حسبنا الله ونعم الوكيل.
اور بے چینی اور نفسی اضطرابات سے چھٹکارا پانے طریقہ بھی بتایا ہے کہ اس “خالق و رازق، غفور رحیم”کو یاد کرو دل مطمئن رہے گا “الا بذكر الله تطمئن القلوب”
آج کے مادی ماحول میں بے چینی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم زبانی طور پر اس کی قدرت و عظمت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل یقین کی دولت سے محروم ہے، ضرورت ہے کہ رب سے دل کا ٹوٹا ہوا رشتہ استوار کریں پھر اسے مضبوط کریں۔
Add Comment