گھر کے ذمہ دار کی حیثیت مرکزی ستون جیسی ہوتی ہے جس پر گھر کی چھت کا سارا بوجھ ہوتا ہے اگر اس مرکزی ستون کو گرایا جائے یا اسے کمزور کر دیا جائے تو چھت کسی وقت بھی زمیں بوس ہو سکتی ہے،یہی حال گھر اور خاندان کے ذمہ دار کا ہوتا ہے اگر ان پر گھر کے ممبران کا اعتماد متزلزل ہو جائے تو خاندان تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتا ہے، ہر فرد منمانی کرتا ہے، اجتماعیت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔
انسانی زندگی کی تحسین وترقی میں خاندانی نظام کی اہمیت ایسی ہے جیسے جسم انسانی کیلئے مقویات، ان کے بغیر جسم باقی تو رہ سکتا ہے لیکن بالکل لاغر اور ناتواں بن کر، جو کسی کام کا نہیں۔
خاندانی نظام کی بقاء آپسی محبت، بھائی چارہ، باہمی اعتماد، اور باہمی تعاون، پر مبنی ہوتی ہے، اس کی جگہ باہمی دشمنی، بد اخلاقی اور انتشار و افتراق اور شکوک شبہات پیدا ہوتے ہیں،تو انتشار اس کا مقدر ہوتی ہے، باہمی روابط کے نام وہاں بس رسمی تعلقات باقی رہ جاتے ہیں، کبھی عید، بقرعید اور دوسری تقریبات میں ایک دوسرے سے رسمی ملاقاتیں ہوجاتی ہیں، گویا خاندان کی روح ختم ہو جاتی ہے بس بے جان جسم باقی رہتا ہے۔
تہذیب جدید کی تباہکاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خاندانی نظام بالکل انحلال و انفکاک کا شکار ہوگیا ہے، اس کے بھی اپنے مقاصد ہیں، مادیت کے عروج کیلئے پڑھے لکھے غلاموں کی بھیڑ ضروری ہے جو ہر بندھن سے آزاد ہو، اسے اپنی زندگی کے علاؤہ ماں باپ بھائی بہن اور دوسرے رشتوں کی کوئی پروا نہ ہو، حتی کہ اولاد سے بھی بے نیاز ہو جائے۔
ان رشتوں کی حفاظت خاندانی نظام کی بقاء میں ہی مضمر ہے، اگر وہ بکھر جائے تو پھر انسان بے لگام ہوجاتا ہے، سب سے بے نیاز اپنی ذات میں مگن رہ کر وہ زندگی کے لطف محسوس کرتا ہے، اور الگ رہ کر ہی وہ تجارتی گھرانوں کی اصل خدمت کرسکتا ہے۔
مغرب تو خاندانی نظام سے کب کا جان چھڑا چکا ہے، ان کے یہاں ایسے بچوں کی بہتات ہے جن کے ماں باپ کا کوئی اتا پتا نہیں، لڑکے شادی کرنے کیلئے اپنی محبوباؤں کے ڈی این اے ٹسٹ کرا رہے ہیں، کہ کہیں اس کی اپنی بہن نہ ہو، وہاں برسوں پہلے خواتین کو یہ حقوقِ دئے گئے کہ ازدواجی تعلقات سے باہر بھی تعلقات بنا سکتی ہیں، شوہر کو اعتراض کا کوئی حق نہیں، خاندانی نظام کو تباہ کرنے کیلئے باضابطہ قدیم اخلاقی اصول کو فرسودہ ثابت کرکے الگ سے نئے اصول وضع کئے گئے، اخلاق سوز اور اباحیت کو فروغ دینے والی ناولیں لکھی گئیں، مضامین شائع ہوئے، فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے، ان میں یہ دکھایا گیا کہ خاندانی نظام سے بندھے رہنے والوں کی زندگیاں کیسے تباہ ہوجاتی ہے۔
بصری ذرائع ابلاغ ہمیشہ ہی سمعی ذرائع ابلاغ سے طاقت ور اور زود اثر ثابت ہوئے ہیں، اور عصر حاضر کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ یہ “پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کا زمانہ ہے” جب انسان چیزوں کو پڑھتا ہے تو غور کرنے کی فرصت میسر ہوتی ہے، وہ اگلی لائن پڑھنے سے پہلے،ذرا ٹھہر کر سابقہ سطور کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، لہذا ان کا ذہن مثبت اور منفی دونوں پہلو اس کے سامنے پیش کرتا ہے، اس کے برخلاف جب انسان چیزوں کو اسکرین پر برپا ہوتے دیکھتا ہے تو مناظر بہت جلدی تبدیل ہوتے ہیں ، دوسرے منظر کے آتے ہی پہلا منظر نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ااس طرح دیکھنے والے کو ہر منظر پر غور کرنے کی فرصت نہیں ملتی لہذا جو رطب و یابس پیش کیا جاتا ہے وہ ذہنوں سے الجھ کر، چپک کر، چمٹ کر رہ جاتا ہے، وہ اسی دوران ان مناظر کی تصدیق و تردید پر مجبور ہوجاتا ہے، پھر آس پاس برپا ہونے والے واقعات کو ان پر منطبق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
حالاں کہ یہ فلمیں، ڈرامے کیا ہیں، یہ تو فقط جھوٹے اور خیالاتی قصے کہانیوں کو تصویری شکل دیکر ناظرین کے سامنے پروسے جاتے ہیں، حقیقت سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا،یہ تو خالص بیمار ذہنوں میں ابھرنے والے منتشر خیالات کا مرتب مجموعہ ہوتے ہیں۔
مشرق اس قباحت سے اب بھی بڑی حد تک محفوظ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی اب اس طرح کے اخلاق سوز قوانین کو منظوری مل رہی ہے، سماج بھی کسی حد تک قبول کرنے لگا ہے، اور اس میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہے ہیں ٹیوی کے سلسلہ وار ڈرامے “سیریل” اکثر ڈراموں کا بنیادی موضوع یہی ہوتا ہے کہ خاندانی نظام سے بندھا رہنے والا انسان اپنی زندگی کی رنگینیوں سے کس طرح محروم ہوجاتا ہے، اس کی زندگی میں ذاتی خوشیوں کا کس طرح خون ہوجاتا ہے۔
ان ڈراموں میں بالخصوص ماؤں کے کردار کو جس طرح ڈراؤنے اور بھیانک شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ اپنی ماں کی ممتا سے انسان کا اعتماد اٹھ جاتا ہے، بچوں کیلئے اپنی زندگی قربان کردینے والی ماں اپنی ہی اولاد کی نظروں میں مشکوک ہوجاتی ہے۔
والدین خدا کی وہ عظیم نعمت ہیں جنہیں خالق کائنات اس ننھی مخلوق کے پرورش کی ذمہ داری سونپتا ہے جو زندہ رہنے کیلئے ہر قدم پر کسی کی بے پناہ شفقت و عنایت اور بے لوث محبت کا محتاج ہوتی ہے، چناں چہ والدین کی نظر میں بچہ بوڑھا ہونے کے بعد بھی بچہ ہی رہتا ہے، انہیں اس بچے کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، ازدواجی زندگی آباد ہونے کے بعد بھی وہ بالخصوص ماں کی نظر میں گودی میں ہمکتے ہوئے بچے کی مانند ہوتا ہے، اسلئے بیوی، بچے، خاندان اورازدواجی زندگی کے دیگر مسائل میں گھرتا ہے تو بھی ماں تڑپ اٹھتی ہے، برداشت نہیں کر پاتی، بسا اوقات اسے لگتا ہے کہ اس کے جگرشے کی محبت تقسیم ہورہی ہے تو وہ رد عمل ظاہرتی ہے۔
یہ سب کچھ عموماً اولاد کی محبت میں اور ان کی بہتری کے لئے کرتی ہے، لیکن آج کی دنیا میں انہیں واقعات کو ایک دوسرا رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے، نوجوان لڑکے لڑکیوں کے سامنے ماں کی محبت کو ایک ٹریجڈی بناکر پیش کیا جاتا ہے، ان سیریلوں میں ماں کے ساتھ بھائی بہن اور دیگر اقارب کو” سانپ” بچھو” بناکر پیش کرتے ہیں جن کے زہر سے بچنے کی صورت میں ہی زندگی مامون و محفوظ رہ سکتی ہے، انہیں گھر کے مسائل کا ذمہ ٹھہرایا جاتا ہے، ایسے مناظر پیش کئے جاتے ہیں جیسے گھر کے سارے ناخوشگوار حالات و واقعات کے ذمہ دار یہی رشتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نئی نسل کی لڑکیاں اپنی ساس کو ماں، نند کو بہن، دیور کو بھائی اور سسر کو باپ نہیں،اپنا دشمن سمجھتی ہیں، اس کے ذہن میں ان سارے اعزہ و اقارب کے تئیں منفی جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، پھر وہ ان مقدس رشتوں سے ملنے والی محبت کے بجائے ان کی مفروضہ دشمنی کے آثار کی تاک میں رہتی ہیں۔
ظاہر ہے انسان جسے اپنا ہمدرد اور محب مخلص سمجھتا ہے اس کا ہر عمل محبت اور اخلاص وفا پر محمول کرتا ہے اس کے بر عکس جسے دشمن سمجھتا ہے اس کے ہر عمل سے دشمنی کے الاؤ سے اڑتی ہوئی چنگاری کا احساس پیدا ہوتا ہے ، جب لڑکیوں کے ذہنوں میں ماں اور دیگر اقارب کی ایسی خوفناک تصویر بٹھادی جاتی ہے تو خیر کی امید کہاں رہے گی، بلکہ انہیں یقین ہو چلا ہے کہ ماں کے فیصلوں سے اس کا گھر تباہ ہو جائے گا، لہذا ان سے الگ رہنے میں عافیت سمجھتی ہے، شوہر پر مختلف طریقوں سے دباؤ بناتی ہے کہ ماں سے دور ہوجائے، اس طرح بسا بسایا خاندان بکھر جاتا ہے۔
پہلے بچے سوتے وقت والدین یا گھر کے بڑے بوڑھوں سے قصے کہانیاں سنتے تھے، وہ کہانیوں کے انتخاب میں اس بات کا خصوصی اہتمام کرتے تھے کہ تربیتی مواد پر مشتمل ہوں، دینی واقعات،مظلوموں کی مدد، بہادری کی داستان، باہمی ہمدردی، آپسی بھائی چارہ کے قصے سنائے جاتے، اور بچے سنتے سنتے سو جاتے، اب بچوں کے تربیت کی ذمے داری والدین کے کے بجائے دوسروں پر ( موبائل کے ذریعے سیریلز، ڈرامے اور فلموں ) پر چلی گئی ہے، کچے اذہان کی تربیت اور تشکیل کا کام انٹرنیٹ کر رہا ہے، والدین اور گھر کے بڑوں کا کردار چھوٹتا جا رہا ہے، بچے اب بڑوں کے پاس بیٹھنا پسند ہی نہیں کرتے، بس دور بھاگ کر انہیں سیریلز اور واہیات مشغولیت کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ خاص کر لڑکیاں، حتی کہ ان دین دار گھرانوں میں بھی یہ وبا پھیلتی جارہی ہے جہاں فیملی کے ساتھ ٹی وی پر ڈرامے دیکھنے کا رواج آج بھی نہیں ہے بلکہ ان گھروں میں سرے سے ٹی وی ہی نہیں ہے۔
ایسی صورت میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ سیریلوں کی خطرناکی کو سمجھیں اور حکمت کے ساتھ بچوں کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کریں، اولا تو بچوں کو موبائل سے دور رکھیں اور مجبوری میں دینا پڑے تو کم از کم اس پر نظر رکھیں کہ وہ موبائل پر کیا دیکھ رہے ہی، ورنہ ایک مرتبہ ان کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ سارے رشتے ناطے سانپ کی مانند ہیں تو جان لیجئے کہ ان کی ساری زندگی ان رشتوں میں موجود مفروضہ زہر کے آثار اور ان سے بچنے کے طریقوں کی تلاش میں گذر جائے گی، اہل خانہ کے سلوک واطوار میں محبت کا گوشہ ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کریں گے، اور دنیا جانتی ہے کہ جب انسان کسی کے تئیں منفی جذبات سے بھر جاتا ہے تو تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
Add Comment